تحریر ر مشا عا ر ف
یہ ملک ملت اسلا می کے نام پر بنایا گیا تھا۔اس ملک مین ملت اسلامیہ کے ا صو لو ن کو مد نظر ر كھا جا تا ہے،اسلام کے اصولون کو مد نظر رکھ کر قانون بنایا جاتا ہے۔اپ ص نے فرمایا ہے مذدور اسکا پیسہ اسکی کمای سے پہلے دے دو ۔
اگ لگا تی مہنگا ی کے دور مین کیا ایسا ہورہا ہے؟نہین ایسا ہر گیز ا گر ایسا ہوتا توپاکستانکےبزرگ،جوان،مرد،عورت جوکہ خود مذدور کے شعبے سے وابستہ ہے روتے ہویے دیکھای نہ دیتے۔وہ بھی اپنے بچو ن کو اعلیٰ تعلیم دے سکتے۔ان کی نسلین در نسلین مقروض نہ رہتی،ان کی پیڑی مذدور یان نہ کرتی۔دو وقت کی سوکھی روٹی کھانے پر مجبور نہ ھوتے۔ایک سروے کمطابق پاکستان کی کل ابادی کا ۵کڑوڑ۲۰لاکھ ہے۔
یعنی ایک بڑی تعداد مذدوری کر رہی جوکہ کے اکر روز حاضری نہ لگایے تو ان کے بچے بھوکے مر جاتے۔مزدور ہر وہ انسان ہے جو روزانہ کی بنیاد پر پیسہ کماتا ہے یعنی ایک رکشہ چلانے والا،ایک ریڑھی چلانے والا،ایک اسکول کا استاد،ایک سبزی بیچنے والا،ایک ہو ٹل مین کام کرنے والا ایک کمپنی مین کام کرنےوالامزدور،ایک رنگ سا ز،ایک گدھا گاڑی چلانے والا۔ان سب کی روز کی کمای کم از کم ۱۵۰۰سے ۲۰۰۰ہونی چاہیے ہے،جبکہ بمشکل ان کو۱۰۰۰س ۸۰۰۰ملتے ہین۔جبکہ ایک پراوٹ استاد کی کم از کم تنخواہ۱۵۰۰۰ سے شروع ہونی چاہیے۔لیکن ہمارے پراوٹ استاد بمشکل ۸۰۰۰سے ۱۰۰۰۰ ہزار مہینہ لیتے ہین۔ان حالات مین کہان ایک مذدور پیٹ بھر کے روٹی کھا سکتا ہے،کہان اپنے بچون کو تعلیم دے سکتا ہے؟ کہان بچون کا پیٹ پال سکت ہے ، کہان ضروریات ذندگی پوری کرسکتا ہے؟ یہ اسلا میہ جمہوریہ پا کستا ن ہے
اگر مزدور کمانے کے لے جاے تو واپس انے کا پتہ نہین ہوتا، خاص طور پر صوبہ بلوچستان مین مزدورون کا قتل عام کسی سے دھکا چھپا نہین ہے۔ایک مزدور ان سب بڑے بڑے افسرون سے ذیادھ ہے جوکہ Ac مین کرسی پر بیٹھ کر کام کرتے ہین مزدور دن، رات ،گرمی،سردی نہین دیکھتا ہے۔بس کام کرتا ہے اور سخت مشقت سے کماتا ہے ۔ ان کے لے انصاف کہان ہے؟ان کے حق مین کون بولے گا۔ اس کے لے ضروری ہے کہ اہل حیثیت لوگ ان کے حق مین بلند اواز اٹھاے اور ان کے حق مین انصاف سے پیش اے۔