Ultimate magazine theme for WordPress.

موضوع :-پرینٹ میڈیا کی اہمیت کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔

0

تحریر:- محمد فاروق پندرانی

موضوع :-پرینٹ میڈیا کی اہمیت کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔

اس وقت ملک بھر میں غیر یقینی کی کیفیت ہے۔ ہرطرف افراتفری کی عالم میں ملکی صورتحال اور عوامی مثاہل کو اجاگر کرنے والے شعبہ صحافت اسی غیر یقینی اناڑی پن کی زد میں ہے۔ عوامی مثائل کو اجاگر کرنے ملکی ترقی میں قلیدی کردار ادا کرنے والے صحافی جو دیگر کی آواز تھی آج خد ان سے ان کی آواز چھینی اور قلم سے چھڑ چھاڑکی جارہی ہے۔

مجموعی طور پر الکیٹرک و پرینٹ میڈیا اس کی نشانہ پر ہے. اسی صورتحال کے پیش نظر گزرشتہ روز تین مئی کو عالمی یوم صحافت کو سوگ کے طور پر منایاگیا۔ جہاں بلاوجہ یہ کوئی معروضی وجہ کے تحت پرینٹ میڈیا پر پاپندی لگائی جارہی ہے۔

اس وقت خاص طور پر بلوچستان میں صحافیوں کی پروفیشنل لائف انتہائی خطرے میں ہے۔ ایک طرف بلوچستان کے سیاسی صورتحال شدت پسندوں کی زورشورسے کاروائیاں جس کے زدمیں صحافی ہر دور میں رہے ہیں۔ایسے کنفلیکٹ علاقوں میں صحافیوں کو ہمیشہ ٹارگیٹ کیا جاتارہاہے۔ ایک طرف شدت پسندوں کی جانب سے کوریج نا دینے پر دھمکیاں تو دوسری طرف حکومت کی جانب سے سب کچھ ٹھیک ہے کا نعرہ لگایاجائے۔ جس کی تازہ ترین مثال شاہد زہری ہے۔جو ضلع حب کے شہر میں بم دھماکہ میں شہید کیے گئے ہیں۔جس کی زمہ داری قلعدم تنظیم بلوچ لبریشن آرمی نے لی ہے اور الزام عاہد کی ہے کہ وہ فوج کے آلہ کارتھے۔ جبکہ صحافتی تنظیموں نے اس الزام کو بے بنیاد قرار دیاہے۔

دوسری جانب صحافیوں کو معاشی یا پروفیشنل تھریٹس کے زریعہ دیوار سے لگایاجارہاہے۔جس کی مثال حال ہی میں چند نیوز چینلز نے اپنے بیوروز ہی بند کردئے جس سے صحافتی عملہ بےروزگارہوگئے۔

اس کے برعکس حکومت کی جانب سے لوکل اخبارات کو ختم کرنے کا عندیہ دیا گیاہے۔اور اخبارات کی اہمیت کو فراموش کیاجارہاہے۔ اور اس حد تک حکومت کی جانب سے لاپروائی کے ساتھ یہ الزام بھی عائد کی جارہی ہیں کہ یہ اخبارات تمام کے تمام ڈمی اخبارات ہے جو صرف کاروبار اور اشتہارات کے حدتک محدود ہے۔جبکہ پریس تنظیموں نے اس الزام کو رد کرتے ہوئے یہ کہاہے کہ اگر چہ لوکل اخبارات ڈمی ہے یا کاروبار کے حدتک محدود ہے تو حکومتی نمائندہ کیوں ان کو مخالف بیانات یاخبروں کو شایعہ کرنے سے روکتی ہے اور بہ زور من پسند اشتہارات چپانے کا حکم دیتی ہے۔

بلوچستان میں ابتدائی دور میں بھی پریس کی اہم کردارہاہے۔جس میں لوکل و پارسی کمیونٹی کی قردار کو فراموش نہیں کیا جاسکتاہے۔ بلوچستان میں بقاعدہ طور پر منظم انداز میں پریس کی تاریخ پارسی کمینوٹی سے جڑی ہے۔ بلوچستان گزیٹیر کوہٹہ پشین 1906کے تحت بلوچستان میں مذکورہ تین پریس کام کرہے تھے۔ جن میں وکٹوریہ پریس1888 البرٹ پریس 1891 کرزن پریس 1902میں شروع ہوا۔ صحافی ابراہیم خلیل کے مضمون مطوعہ روز نامہ کوئٹہ 22مئی 1985 کی اشاعت میں بھی البرٹ پریس کو کوئٹہ کا قدیم چھاپہ خانہ قراردیاہے۔

اس کے علاوہ تاریخ کے رد سے بلوچستان میں بقاعدہ صحافت آج کی نہیں بلکہ ایک صدی کی بات ہے۔یعنی 170 سال قبل کی جہاں صورتحال یہ تھی کہ اخبارات نکلتے اور بند ہوجاتے تھے۔یہ سلسلہ قیام پاکستان تک رہا۔ بلوچستان میں صحافت کی صورتحال یہ تھی کہ مقامی اخبارات جن میں البلوچ،الحنیف،بلوچستان جدید، بلوچستان کہ آواز تھے مگر یہ اخبارات مجبورا حیدراآباد،کراچی،اور جیکب آباد سے چھپنے کے بعد لفافوں میں بطور خط کوہٹہ آتے اور خفیہ طور پڑھے جاتے تھے۔

بلوچستان میں صحافتی جدوجہد میں میر یوسف عزیز مگسی ،خان صمدخان اچکزئی، محمد حسین عنقا،میر محمد اعظم شاہوانی،میر عبدالعزیزکرد، عبدالکریم شورش،نور محمد پروانہ ودیگر کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جاسکتاہے۔

یقینن سیاست وصحافت کا آپس میں گہرا تعلق ہے اور اس تعلق کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے۔ اس وقت کے اولین پائے کے لیڈیران نے انگریز کے ظلم کے خلاف صحافت کا سہارا لیا اور اپنی آواز منظم طریقہ سے عوام میں پہنچانے میں زور دی۔

بلوچستان میں صحافیوں کے اولین قافلے کے سرخیل خان عبدالصمد اچکزئی جسے بابائے صحافت بھی کہاجاتاہے۔ صحافتی و سیاسی جدوجہد کے تحت خان شہید کو بلوچستانی گاندی بھی کہاجاتاہے۔خان صمد نے 1935 میں بلوچستان میں پہلی بار پریس ایکٹ لاگوکیا۔1938 میں ایک نیا ہفت روزہ”استقلال”خان صمد کی سربراہی میں شائع ہونا شروع ہوا۔

بلوچستان میں انگریزوں کی قابض حکومت نے عوام کی خیالات وسوچ فکر پر مکمل پاپندئی لگائی ہوئی تھی۔ وہ سیاست سے زیادہ صحافت سے خوف ذدہ تھے اور سمجھتے تھے کہ صحافت کہ آزادی ان کی موت ہوگی۔ یہی وجہ ہے۔صحافت کو سیاست سے الگ کیا اور اپنی رٹ قاہم کی۔

ایک بار پھر سے بلوچستان میں ماضی کو دہراجارہاہے۔ منظم طریقہ سے پریس کی اہمیت کو فراموش کیا جارہاہے۔ جبکہ ابتداسے اب تک پریس و اخباروں کی اہمیت اب تک برقرار ہے۔ آپ اس بات سے اندازہ لگا سکتے ہیں۔الکیٹرانک و سوشل میڈیا پر کام کرنے سے پہلے صحافی یا عام عوام ایک نظر ضرور اخبارات پر دوڑھاتے ہیں۔کیونکہ پرینٹ فام میں کوئی تبدیلی نہیں کی جاسکتی ہے۔اور اخبارات میں مصدیقہ و تصدیق شدہ خبریں ہوتے ہیں جبکہ سوشل و پرینٹ میڈیا میں تبدیلی ممکن ہے۔

پاکستان میں ضیاالحق کے ملیٹری لاء کے دور میں بھی اس شعبہ سے وابسطہ یعنی صحافیوں کو بے حد خطرات لاحق تھے۔صحافیوں کو تھریٹس اور آزاد صحافت پر قدغن لگائے گئے تھے۔ من پسند خبروں کے علاوہ باقی تمام خبروں کو کاٹاجاتاتھا۔ یا بلینک کیاجاتاتھا۔ حکومت کی جانب سے صحافیوں کو قید و بند کا سامنا کرنا پڑھا۔

2001سے قبل ملک پھر میں اخبارات اپنی عروج پر تھے۔اس کی اہمیت اور عفادیت ہی سے کوئی انکار نہیں کرسکتاتھا۔ اخبارات میں شائع ہونے والے خبروں پر براہ راست عملدرامد ہوکرتاتھا۔ شعبہ اپنی عروج پر تھا۔ حکومت کی جانب سے گرنٹس دی جاتی تھی۔پریس کلب کی بجٹ اور صحافیوں کے لیے الائونس مقرر تھی۔ شعبہ میں پروفیشنل صحافی موجود تھے۔ سیاسی مداخلت ناہونے کی برابر تھی۔ صحافی آزادانہ طور پر احتساب کرسکتاتھا۔ عوامی مثائل کو شفاف طریقہ سے اجاگرکیاجاتاتھا۔ مجموعی طور ہر ہم یہ ضرور کہ سکتے ہیں۔ آزادانہ صحافت کی وجود تھی۔ یہوں لگتاتھا کہ شاہد اب ملک اور قوم اپنی منزل تک ضرور پہنچ گا۔

مگر 2001میں ٹی وی نیوز چینلز کا آغاز ہوا۔ جہاں صحافیوں کی ڈیمانڈ زیادہ ہونے کی وجہ سے شعبہ میں جانبدار صحافت کا آغازہوا۔ من پسند آواز گھونجنے لگے۔نیوز کو فریم کیا جاتھا تھا۔چونکہ اب خبریں 24 گھنٹہ براہ راست نشر کیا جاتاتھا۔ ایک طرف کاروبار تو دوسری طرف سیاست میں جانبداری کے زریعہ مالکان نے سیاہ اور سفید میں فرق کرنا بھول گئے۔ عوامی آواز دب گئی احتساب کا عمل رکھ گیا۔صحافی کی آزادی کو محدود کیا گیا۔ مالکان کی پالیسیاں اہم ثابت ہوئی۔

دوسری جانب پیکا ایکٹ کے تحت مذید آزادی کو سلف کیا گیا۔ بوجہ کہ صحافت اب مجبوری بن گہی۔

ریاست پاکستان اس وقت شدید معاشی، سیاسی، وسماجی، بدحالی کا شکا رہے۔ایک طرف مہنگائی میں اضافہ تو دوسری طرف اداروں میں جدید
ٹیکنالوجیکل سروسسز، کے بجائے اداروں کی اہمیت کو پریس کی طرح فراموش کرکے یا تو عارضی یاپھر مستقل طور پر بند کیاجارہاہے۔

اداروں کی زوال ہی بنیادی طور پر سیاسی اقربا پروری اور کرپٹ گرورننس کا نتیجہ ہے۔

آپ یہ بھی پسند کریں

اپنی رائے دیں

Your email address will not be published.