Ultimate magazine theme for WordPress.

آرمی ایکٹ کا اطلاق صرف فوج پر ہوتا ہے ،جمال مندوخیل

0

آرمی ایکٹ کا اطلاق صرف فوج پر ہوتا ہے، ملٹری کورٹس میں ٹرائل کے طریقہ کار پر مطمئن کریں، جسٹس جمال مندوخیل
فوجی افسران کو بنیادی حقوق اور انصاف ملتے ہیں یا نہیں ہم سب کو مدنظر رکھیں گے، دوران سماعت جسٹس جمال مندوخیل نے ملٹری کورٹس میں ٹرائل کے طریقہ کار پر سوالات اٹھا دئیے
اسلام آباد(الجزیرہ ویب ڈیسک)سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینزکے ٹرائلز کیس کی سماعت کے دوران جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دئیے کہ آرمی ایکٹ کا اطلاق صرف فوج پر ہوتا ہے، ملٹری کورٹس میں ٹرائل کے طریقہ کار پر مطمئن کریں،جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بنچ فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل سے متعلق کیس کی سماعت کر رہا ہے۔

بنچ میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس شاہد بلال حسن شامل ہیں۔وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث کے دلائل جاری ہیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ فوجی افسران کو بنیادی حقوق اور انصاف ملتے ہیں یا نہیں ہم سب کو مدنظر رکھیں گے۔سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے ملٹری کورٹس میں ٹرائل کے طریقہ کار پر سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ جو آفیسر ٹرائل چلاتا ہے، وہ خود فیصلہ نہیں سناتا۔جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دئیے کہ جو آفیسر ٹرائل چلاتا ہے کورٹ میں وہ خود فیصلہ نہیں سناتا۔ ٹرائل چلانے والا افسر دوسرے بڑے افسر کو کیس بھیجتا ہے وہ فیصلہ سناتا ہے جس آفیسر نے ٹرائل سنا ہی نہیں وہ کیسے فیصلہ دیتا ہوگا۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ مجھے 34 سال اس شعبہ میں ہوگئے مگر پھر بھی خود کو مکمل نہیں سمجھتا، اس آرمی افسر کو اتنا تجربہ اور عبور ہوتا ہے کہ سزائے موت تک سنا دی جاتی ہے۔وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ ملٹری ٹرائل کے طریقہ کار کو دلائل کے دوسرے حصے میں مکمل بیان کروں گا۔جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آرمی ایکٹ کا اطلاق صرف فوج پر ہوتا ہے، فوجی افسران کو بنیادی حقوق اور انصاف ملتے ہیں یا نہیں ہم سب کو مدنظر رکھیں گے۔جسٹس مسرت ہلالی نے سوال اٹھایا کہ اس نکتے پر بھی وضاحت کریں کہ فوجی عدالت میں فیصلہ کون لکھتا ہے؟

میری معلومات کے مطابق کیس کوئی اور سنتا ہے اور سزا جزا کا فیصلہ کمانڈنگ افسر کرتا ہے، جس نے مقدمہ سنا ہی نہیں وہ سزا جزا کا فیصلہ کیسے کر سکتا ہے؟۔جسٹس نعیم افغان نے کہا کہ آرمی ایکٹ کے تحت خصوصی عدالتوں میں ٹرائل کا طریقہ کار مختلف ہوتا ہے اور یہ بھی کہ خصوصی عدالتوں میں ٹرائل کن مراحل سے گزرتا ہے، اس بارے میں آگاہ کردیتے۔وکیل وزارت دفاع نے کہا کہ فیصلہ لکھنے کیلئے جیک برانچ کی معاونت حاصل ہوتی ہے۔جسٹس حسن اظہر رضوی نے وضاحت کی کہ خصوصی عدالتوں کا ٹرائل بھی عام عدالت جیسا ہی ہوتا ہے اور کہا کہ ملزم کیلئے وکیل کے ساتھ ایک افسر بطور دوست بھی مقرر کیا جاتا ہے۔معاملہ بنیادی حقوق اور آرٹیکل 10 اے کے تناظر میں بھی دیکھا جا رہا ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے اس بات پر زور دیا۔

آپ یہ بھی پسند کریں

اپنی رائے دیں

Your email address will not be published.