رپورٹ : ہزار خان بلوچ
یہ سال 2023 تھا، فروری کے آخری تاریخوں میں ایک حادثے کی خبرآئی کہ غیرقانونی تارکین وطن کی کشتی اٹلی کے ساحل کے قریب ٹکرانےسے حادثے کا شکار ہوئی، جس میں 59 افراد ہلاک ہوئے، جس میں کوئٹہ سے تعلق رکھنے والی ہاکی اور فٹ بال کی
کھلاڑی شاہدہ رضا بھی شامل تھی۔
یہ خبر نہ صرف کوئٹہ بلکہ پورے پاکستان کے لیےتشویش کا باعث بنی اور وزیراعظم سے لےکرہرایک نے افسوس کا اظہار کیا۔
شاہدہ رضا ہاکی کی بہترین کھلاڑی تھی، جس نے 2012 میں ایشین ہاکی کپ میں پاکستان کی نمائندگی کی تھی، اوراسے اس کے ساتھیوں نے چنٹو کا نام دے رکھا تھا۔
بلوچستان سے تعلق رکھنے والی فٹ بال کی کھلاڑی اورشاہدہ رضا کی سہیلی سونیا مصطفی کہتی ہیں کہ شاہدہ نے یہ فیصلہ خوشی سے نہیں کیا تھا، اس کا بڑا نام اورمقام تھا ہاکی میں لیکن بعض اوقات انسان ایسے فیصلے کرتا ہے، جس کا انجام اسے معلوم نہیں ہوتا ہے۔
سونیا کہتی ہیں: ‘ شاہدہ کا کوئی ارادہ نہیں تھا کہ بہتر زندگی چھوڑ کر بیرون غیرقانونی راستے سےجائے، لیکن اس نےیہ فیصلہ اپنے بچے کے لیے کیا تھا، جس کا گھر والوں کو بھی علم نہیں تھا، اگر کسی کو معلوم ہوتا شاید اسے جانےنہ دیتے۔
سونیا شکوہ کرتی ہیں کہ ہمارے ہاں کھلاڑیوں کو وہ کچھ نہیں ملتا جس کی وہ حق دار ہیں یا جو ان کو چاہیے اس لیے یہ مایوس اور بعض اوقات یہ لوگ شایدہ کی طرح فیصلےکرتی ہیں۔
وہ مزید کہتی ہیں کہ 2023 کے بعد اسی طرح لوگ کشتی کے ذریعے یورپ اور دوسرے ممالک کا سفر کرتےہوئے حادثے کا شکار ہوئے، لیکن کسی نے ان کو نہیں روکا کیوں کہ لوگ بعض اوقات حادثات کو بھول جاتے ہیں۔
بلوچستان کے ضلع چاغی سے تعلق رکھنےوالے ایک صحافی فاروق بلوچ کہتے ہیں کہ انسانی سمگلنگ کا سلسلہ جاری ہے، تاہم اس میں اب کمی آئی ہے، پہلی والی صورتحال نہیں رہی کوئٹہ سے چاغی تک آنےوالے مختلف چیک پوسٹوں سے گزرتے ہیں، جن میں اکثر دستاویزات نہ ہونے پر گرفتار کیے جاتے ہیں۔
فاروق نے بتایا کہ اس وقت چاغی کے علاقے نوکنڈی میں افغانستان کی سرحد سے لوگ غیرقانونی طور پر داخل ہوتے ہیں،جن کو نوکنڈی اور ماشکیل میں ٹھہرایا جاتا ہے، جن کو بعد میں غیر روایتی راستوں سے ایران میں ایجنٹ منتقل کرتے ہیں۔
ایک ایجنٹ نےجگہ اور شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ انسانی سمگلنگ ڈک کے سرحد سے ہوتی ہے، جہاں سے افغانستان سے تعلق رکھنے والے افراد آتے ہیں، جن میں ہرات، کابل، قندھار سمیت دوسرے علاقوں کے لوگ شامل ہوتے ہیں، جن کو ہم ایرانی سرحد تک پہنچانے کے 3500 روپے لیتے ہیں، اس میں کھبی کامیابی ملتی ہے، کبھی نہیں ملتی ہے۔
اس نے بتایا کہ پاکستان کےپنجاب اور دوسرے صوبوں سے آنے والوں کو کوئٹہ سے اور افغانستان سے ایجنٹ ہمارے پاس بھیج دیتے ہیں، جن سے علاقےاور حالات کے مطابق پیسے لیے جاتے ہیں، جو دس ہزار سے شروع ہوتا ہے۔
ایجنٹ نے بتایا کہ ہمارے کام بندے کو ایران سرحد سے پار کروانا ہوتا ہے، اس کے بعد ہماری ذمہ داری نہیں ہوتی، بعض اوقات سرحد پر سختی کے باعث ہم ناکام ہوجاتے ہیں ، اس لیے ہم دوسرے دن پھر کوشش کرتے ہیں۔
اس نے مزید بتایا: ‘بعض سرحد کے قریب اور چیک پوسٹوں پر گرفتار بھی ہوجاتے ہیں،بعض کو ہم سرحد تک پہنچادیتے ہیں، سرحد پار کے قریب انہیں کہتے ہیں جتنا تیز دوڑ سکتے ہو دوڑوپھر اگےدوسرا ایجنٹ انہیں لے جاتا ہے۔’
ایجنٹ نے مزید بتایا کہ اب حالات اور سرحد پر سکیورٹٰی سخت ہونے کے باعث لوگوں کی تعداد کم ہوگئی ہے، بعض لوگ راستے میں پکڑے جاتےہیں۔
نوکنڈی کے ایک صحافی محمد حسن نے بتایا: ایران کی سرحد تک کا علاقہ ویران اور صحرائی ہے، جہاں آبادی نہیں ہے، اس لیے اگر کسی کو یہاں چھوڑ دیا جائےتو وہ بھوک وپیاس اور راستہ بھٹک جانے سے بھی ہلاک ہوجاتا ہے۔
یاد رہے کہ ایک واقعہ میں انسانی سمگلروں نے پنجاب سے آنے والے کچھ افراد کو نوکنڈی کے علاقے میں صحرائی علاقے میں چھوڑ دیا تھا، جن میں دو افراد ہلاک جبکہ ایک زندہ بچ گیا تھا۔
زندہ بچ جانے والے شخص نے بتایا تھا کہ انہیں ایجنٹ نے صحرا میں ایک جگہ اتارکر کہا کہ وہ کھانا لائے گا، لیکن وہ پھر نہیں آیا جس کے باعث ہمارے دوساتھی بھوک اور پیاس اور گرمی کے باعث ہلاک ہوگئے۔
بلوچستان کے علاقے کوئٹہ سے شاہدہ رضا کے بعد بھی ایک فیملی کے چھ افراد غیرقانونی طریقے سے یورپ جارہے تھے، جن کی کشتی راستے میں ڈوب گئی اور تمام لوگ ہلاک ہوگئے۔
سونیا کہتی ہے کہ شاہد رضا کا معاملہ اس وجہ سے مختلف ہےکہ اس نے اپنے بچے کے بہترمستقبل اور صحت مند زندگی کی خواہش میں یہ فیصلہ لیا، اس نے یہ فیصلہ خود سے لیا، جس کا علم کسی کو نہیں تھا۔
وہ کہتی ہے کہ شاہد رضا نے پاکستان کی پانچ بار مختلف مقابلوں میں نمائندگی کی، لیکن اس کے حالات پھر بھی بہتر نہ ہوسکے، اس نےماں بن کر ایک فیصلہ لیا تھا، لیکن اس کے فیصلے کا کسی کو علم نہیں تھا، اگر کسی کو معلوم ہوتا تو شاید اس کے ساتھ یہ حادثہ نہ ہوتا۔
اس کامزید کہنا تھا کہ ہم بے حس لوگ ہیں جو حادثے کے بعد افسوس کرتےہیں، لیکن زندہ لوگوں کی قدر نہیں کرتے یہی المیہ کہ کھلاڑی اور نوجوان لوگ اتنا پرخطر اور سخت فیصلہ لیتےہیں، جو بعض اوقات ان کی جان بھی لےلیتا ہے۔