تحریر: ہزار خان بلوچ
خیبرپختونخوا کےعلاقے سوات سے تعلق رکھنے والے عزیز احمد زندگی بہتر بہتر طریقے سے گزررہی تھی یہ سن دوہزار کا دور تھا۔ کسی نے اسے بیرون ملک
جانےاور اپنا مستقبل بہتربنانے کا مشورہ دیا، جس نےاسے نہ صرف بہت اچھے خواب دکھائے بلکہ اسے بتایا کہ وہ اپنے گھروالوں کے لیے بھی بہتر مستقبل بنادے گا۔ عزیزچونکہ اس وقت کوئٹہ میں مقیم اور فوٹوسٹوڈیو کا کام کررہا تھا، اس نے تمام کام بند کرکےچیزیں اور سامان بیچ کر پیسے جمع کیے اورایجنٹ کی تلاش شروع
کردی۔
عزیز نے بتایا: ‘یہ کئی مہینوں پر مشتمل سفر تھا، جس میں ہم میدانی علاقوں، صحراؤں اور پانی اور پہاڑوں میں سفر کرتےرہے’۔
عزیز کا مزید کہنا تھا کہ یہ تکلیف دہ اور دکھوں سے برا سفر تھا، جس میں ہمیں ایجنٹوں کے سخت باتوں اور بعض اوقات تشدد کا سامنا بھی کرنا پڑتا تھا۔
اس نے بتایا: ‘ہم نے اس دوران ہم بہت سے ممالک سے گزرے لیکن چونکہ یہ غیر روایتی راستے تھے اس لیے کچھ پتا نہیں چلتا تھا کہ یہ کونسا علاقہ ہے، کبھی دن اور کبھی رات کو سفر کرتے تھے۔’
عزیز کہتے ہیں، شروع میں اس کا اندازہ نہیں تھا کہ ہم نے کن حالات کا سامنا کرنا ہے، لیکن راستے میں جو تکالیف کا سامنا ہوا، اس نے ہمارے تمام دکھائے گئے خواب بکھیر دیے۔
“قومی کمیشن برائے انسانی حقوق (این سی ایچ آر)نے رپورٹ جاری کر دی جس کے مطابق 2021سے اکتوبر 2022 کے دوران غیر قانونی طور پر یورپ جانے والے پاکستانیوں کی تعداد میں سب سے زیادہ اضافہ ہوا۔”
عزیز کہتے ہیں : میری جو جمع پونجی تھی ، میں نے وہ سب اس میں لگادی تھی، لیکن راستے کی صعوبتوں نے بتادیا کہ فیصلہ غلط تھا، ہمیں کئی دن اور راتوں کو سفر کرتے تھے، کھانا بھی بس زندہ رہنے کےلیے مل جاتا تھا۔
اس نے بتایا : ایک دن ہم بہت زیادہ پانی کے اندر جارہے تھے، میرے پا س ایک کیمرہ تھا، جو کو میں نے سر پر سامان میں رکھا تھا، لیکن اس دوران وہ پانی میں گرگیا اور میرا کیمرہ کھو گیا، اس طرح بہت کچھ کھوتے رہے۔
عزیز کے بقول: جس طرح میں نے غلط فیصلہ کیا اس طرح میرے دوسرے ساتھی بھی بیرون ملک کے جھانسے کی وجہ سے پھنسے تھے، وہ سب بھی مصیبتوں کو دیکھ کر گھر کو یاد کرتے تھے۔
وہ بتاتے ہیں کہ چونکہ اس وقت موبائل اتنا عام نہیں تھا، اس لیے ہمارا گھروالوں سے کوئی رابطہ نہیں ہوا ، جو اور بھی تکلیف دہ تھا کہ اگر ہمیں کچھ ہوا تو زندگی بھر انہیں علم نہیں ہوگا کہ ہمارے ساتھ کہاں اور کیا ہوا تھا۔
ایچ آر سی پی کی رپورٹ کےمطابق 2023 کے وسط تک پاکستان پانچواں بڑا ملک بن گیا، دسمبر 2023 تک 8778 افراد غیر قانونی طور پر یورپ کی طرف گئے۔
بلوچستان کے راستے غیر قانونی سفر کرنے والے پہلے کوئٹہ اور پھر چاغی اور نوکنڈی تک پہنچائے جاتے ہیں، جو افغانستان اور ایرانی سرحد سے متصل علاقہ ہے، یہاں سے ایجنٹ ان لوگوں کو ایران سرحد تک پہنچاتے ہیں، جو انتہائی ویران اور خطرناک راستہ ہے، جہاں اکثر لوگوں کی موت بھی واقع ہوجاتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق معاشی مشکلات، روزگار کی کمی اور مہنگائی کے سبب پاکستان سے غیر قانونی طور پر یورپ جانے کے رجحان میں اضافہ ہوا۔
عزیز نے بتایا : ہم کئی مہینوں تک سفر کے بعد ایک اسلامی ملک پہنچے اور اس کے بعد ہمیں آسٹریلیا تک جانا تھا، جو مزید کھٹن اور خطرناک سفر تھا،
سماجی کارکن بہرام لہڑی کہتے ہیں کہ یورپ کی طرف غیرقانونی سفر ایک سماجی مسئلہ ہے، جس میں بہت سے لوگ معاشی اور دیگر وجوہات کی بنا پر یہ پرخطر اور جان کو خطروں میں ڈال کر تے ہیں۔
انہوں نے بتایا: ‘ بلوچستان میں ہزارہ کمیونٹی، افغان پناہ گزین اور کچھ بلوچ بھی اس سفر کا حصہ بنتے ہیں، اگر ہم ہزارہ کمیونٹی کی بات کریں تو یہ لوگ چونکہ دو علاقوں میں محدود ہیں ، وہ صرف ان ہی علاقوں میں کاروبار کرتے ہیں، جس کے باعث ان کے بہت سے لوگ زیادہ مواقعوں کی تلاش میں یورپ کا سفر کرتے ہیں۔’
بہرام لہڑی کہتے ہیں، افغان پناہ گزین چونکہ عرصے سےیہاں رہ رہے ہیں، اس لیے ان کو بھی معاشی پریشانیوں کا سامنا کرناپڑتا ہے، جس کے باعث ان میں سے بھی بہت سے لوگ اس پرخطر اور غیرقانونی سفر کے لیے تیار ہوتے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ بلوچستان کا راستہ غیرقانونی سفر کے لیے کوئٹہ سے چاغی اور تفتان پھر صحرا اور میدانوں علاقوں سے ایران سرحد تک کیا جاتا ہے، اس کے ایران کے راستے عراق ، ترکی اور پھر یورپ کی طرف یہ لوگ جاتے ہیں، یہ تمام راستہ انتہائی خطرناک اور جان لیوا ہوتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق سیاسی بے یقینی، دہشت گردی، مہنگائی، تعلیم کے مواقع کم ہونا اور روزگار کی کمی بھی غیر قانونی ہجرت کے اسباب ہیں۔ پاکستان کے شہری علاقوں سے غیر قانونی ہجرت کا رجحان زیادہ ہے۔
عزیز نے بتایا کہ کئی مہینوں کے تھکادینےوالے اور جان کو خطروں میں ڈال کر ہم کسی طریقے سے آسٹریلیا پہنچ گئے، وہاں جاکر امیگیریشن والوں کے ہتھے چڑھ گئے، لیکن وہاں پر مذہب کی تبدیلی کی بناپر داخلے کی اجازت دینے کا کہا گیا، جس پر میں نے واپس ڈی پورٹ ہونے کا فیصلہ قبول کیااور پھر واپس پاکستان آگیا۔
عزیز احمد کہتے ہیں کہ ہمارے نوجوان ایجنٹوں کے ہاتھوں بے وقوف بنتے ہیں، جو نہ صرف ان کی معاشی نقصان بلکہ اکثر اوقات جان لیوا بھی ہوجاتا ہے، میں نے اپنا سب کچھ داؤ پر لگادیا، جس کا بدلہ مجھے یہ ملا کہ میں اس کے بعد کسی اور کام کے قابل نہیں رہا، کئی سالوں کی محنت کے بعد اب جاکر کہیں الیکٹریشن کے شعبے میں کچھ کام شروع کیا، جس سے گزربسر ہورہا ہے۔
اس نے نوجوانوں کو نصیحت کی کہ وہ کبھی بھی غیرقانونی طریقے سے یورپ امریکہ یا آسٹریلیا کا سفر نہ کریں ، اپنا ملک اپنا ہے، جس میں آپ کے گھر والے والدین اور رشتہ دار ہوتے ہیں، وہاں پر آپ کو کوئی بھی جان پہچان کو بندہ نہیں ہوتا ہے، مرجائے یا زندہ رہے کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔