تحریر: ڈاکٹر عزرا تبسّم
اک صحت مند اور بیمار انسان میں فرق صرف اسکی بیماری کا نہیں ہوتا بلکہ خاص فرق اس کی زندگی میں دلچسپی کا عنصر ہے ، اور اس کے رویے پہ منحصر ہے ، جو بیماری کی وجہ سے اسے متاثر کرتا ہے ۔بیشمر بیماریوں میں سے ایک جس پر بات کریں گے اس کا تعلق آپکی زہنی صحت سے ہے ۔ ڈپریشن یا افسردگی کا عالم عام طور پر صرف بے چینی یا سر درد کی حد تک ہی جانا جاتا ہے ، اور لوگوں کو اس متعلق آج بھی آگاہی بہت محدود ہے ۔
سینٹر آف ڈیزیزس کنٹرول centre of disease control کے ایک اعلامیہ کے مطابق سالانہ 200 ملین لوگ اپنے کام کرنے کی صلاحیت کو ڈپریشن کی وجہ سے متاثر کرتے ہیں اور اوسطاً 17-44$ بلین ڈالر کا نقصان ہوتا ہے اور ان میں سے آدھے ملازمین علاج سے قاصر ہیں ، اور مختلف وجوہات کی بنا پر آگاہی یا شعور نہیں رکھتے ۔
مختلف دفاتر اور کام کرنے کی جگہوں پہ چاہے وہ اک کھیت کا کسان ہو یا دفتر یا فیکٹری میں کام کرنے والا مزدور یا پھر بڑی پوسٹ پہ بیٹھے افسر خاص ہوں ‘ زہنی بیماری سے دوبار ہیں ۔ لوگ کے عام خیال کے مطابق صرف مخصوص لوگ ہی مثلا ڈاکٹر انجینئر یا کوئی بڑا اداکار بڑا سیاستدان ہی اس بیماری کا شکار ہوتا ہے یا یہ ہو سکتا ہے جب کہ حقائق اس کے بر عکس ہیں زہنی صحت کے مسائل کسی بھی شعبے سے منسلک لوگوں کو ہو سکتے ہیں ۔
اور ان کی وجہ سے پیدا ہونے والے حقائق بہت دل شکن اور حیران کن ہیں ۔
زہنی صحت کے مسائل ہونے کا مطلب صرف اداسی کا شکار ہونا نہیں ہے بلکہ ڈپریشن کی علامات ہیں، کام میں دلچسپی کم ہونا، نیند کے مسائل ، فیصلہ کرنے کی صلاحیت متاثر ہونا ، منفی سوچیں اور رویے اور خودکشی جیسے اقدام بھی ہو سکتے ہیں ۔ اور بروقت اس مسائل کے حل کی طرف توجہ نا دینے کا مطلب ہے کہ نہ صرف زاتی زندگی پہ اس کے اثرات ہونگے بلکہ اس کے نقصان کا اثر آپ کے کام کی جگہ آپ کے workplace پر بھی پڑ سکتا ہے ۔
کام کی کارکردگی متاثر ہونا ، مالی نقصان ، نئے اور صحت مند منصوبوں کا فقدان، ساتھی ملازمین کے ساتھ معاملات کے مسائل اور تکرار جو بظاہر کوئی بڑا تاثر نہیں دیتی مگر کسی کی ادارے کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے کیلے دیمک کا کام کر جاتی ہے ۔ایک ریسرچ کے تجربے میں شامل 88٪ حصہ لینے والے افراد کا کہنا تھا کہ انہیں کام کرنے کی جگہ پر ڈپریشن کی علامات کا سامنا ہے ، 52 ٪ کا کہنا تھا کہ کام میں انکی دلچسپی کم ہو گئی ہے (ختم نہیں ، کم ہو گئی ہے )
51٪ نیند کے مسلوں کے شکار ہوئے
، 15٪ لوگوں نے گولیوں کی مدد لینے کی کوشش کی جبکہ 47٪ لوگوں کا کہنا تھا کہ زہنی صحت کے مسائل کیلے مدد لینا کمزوری کی علامت ہے ۔ ۔ یعنی 47٪ لوگوں کی تعداد زہنی صحت کے بارے میں بات کرنے کو اس کا حل تلاش کرنے کو کمزوری سمجھتی ہے ۔ اور مختلف غلط فہمی رائے سے مسائل کو دوچند کرنے میں پیش پیش ہے ۔
ایسے میں اشد ضرورت اس بات کی ہے کہ لوگوں میں زہنی صحت کے مسائل سے متعلق شعور اجاگر کیا جائے ۔ اور مختلف کام کرنے کی جگہوں پہ ایسے تناؤ کو جانچا جائے جسکی وجہ سے کارکردگی کے مسائل جنم لیتے ہیں لؤگوں کو زہنی صحت کے بارے میں معلومات فراہم کی جائے اور اس سلسلے میں مختلف آلات مواصلات کی مدد لی جائے ۔کیونکہ بظاہر اس انفرادی زہنی صحت کی تبدیلی سے معاشرے میں صحت مند سوچ کا رجحان پیدا ہو گا ، یعنی یقیناً تبدیلی کا سورج خوشی کا پیامبر ہو گا ۔
اور زہنی صحت کی حد میں کی جانے والی کوششیں آنے والے وقتوں کیلے اک دانشمندانہ فیصلہ ہے ۔جس کے خوشنما اثرات اور فوائد سے کوئی انکار ممکن نہیں
” اور زہنی صحت کی اہمیت کے بارے میں کوئی رائے نہیں ” ( ڈاکٹر عزرا تبسّم ، سائیکٹرسٹ، )