تحریر، پروفیسر ڈاکٹر کلیم اللہ بڑیچ
21 جون2023 کو پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے شہید سینیٹر محمد عثمان کاکڑ کی دوسری برسی ایوب سٹیڈیم کوئٹہ سمیت ملک اور بیرون ملک میں عقیدت و احترام سے منائی جائے گی ۔ 21 جون 2021 کو محمد عثمان کاکڑ کے پراسرار شہادت نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا جو پاکستان کی کمزور جمہوریت پر دیرپا اثرات مرتب کر رہا ہے ۔ وہ 2015 سے 2021 تک سینیٹ آف پاکستان کے رکن رہے۔ سینیٹ آف پاکستان میں ان کی تقاریر نے انہیں ایک انتہائی معقول لیڈر کے طور پر منوایاا اور انہوں نے ملک کے مظلوم عوام، محکوم اقوام اور پسماندہ برادریوں کے جذبات کی حقیقی ترجمانی کی۔ اگرچہ وہ ایک پشتون قوم پرست تھے،لیکن انہوں نے عملی طور پر ایک جامع انداز اپنایا جس نے پاکستان کی سینیٹ میں مظلوم عوام اور محکوم اقوام کے مسائل کو اجاگر کیا ۔
سابق سینیٹر شہید محمد عثمان کاکڑ نہ صرف مضبوط جمہوریت کے پرجوش پیروکار تھے بلکہ ملک کے مستقبل کے سیاسی منظرنامے کو تشکیل دینے کی بے پناہ صلاحیت کے حامل سیاسی رہنما بھی تھے۔ اپنے طالب علمی کے زمانے میں، محمد عثمان کاکڑ 1987 میں پشتونخوا اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے سیکرٹری اول کے طور پر منتخب ہوئے اور انہوں نے طلباء اور نوجوانوں کو اس عزم کے ساتھ منظم کیا کہ ایسی قیادت پیدا کی جائے جو جمہوریت کی مضبوطی میں اپنا کردار مثبت طور پر ادا کر سکے۔ انہوں نے پختون خواہ ملی عوامی پارٹی کے بینر تلے سیاسی سرگرمیوں میں بڑہ چڑھ کر حصہ لیا جہاں انہوں نے معروف سابق سینیٹر عبدالرحیم خان مندوخہل سے رہنمائی حاصل کی جو کہ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سینئر ڈپٹی چیئرمین تھے۔ اور سائیں کمال خان شیرانی کی علم و دانش سے بہت کچھ سیکھا جبکہ عبدالرزاق دوتانی جو پشتونخوا نیشنل عوامی پارٹی کے سیکرٹری جنرل تھے ان سے پارٹی کو سائنسی بنیادوں پر منظم کرنا سیکھا اور یقیناً خان شہید عبدالصمد خان اچکزئی کی قربانیوں اور وژن کے پیروکار تھے اور آخر کار ان کی راہ پر چلنے ھوئے جام شہادت نوش کیا۔۔ شہید محمد عثمان کاکڑ نےجمہوری اقدار کو فروغ دینے اور مضبوط کرنے کے لیے پختہ عزم کا اظہار کیا۔ پاکستان میں جمہوریت کو مضبوط کرنے اور جمہوریت کے لیے ان کی انتھک کوششوں اور بے خوف سیاست نے انھیں جمہوریت اور عوام کا ہیرو بنا دیا۔ سینیٹ آف پاکستان میں انہوں نے مظلوموں کے حقوق، جمہوریت کی مضبوطی، پشتونوں کی تقسیم شدہ وطن کو پشتونخوا کے نام سے ایک متحدہ صعبے میں یکجا کرنے کی بھرپور وکالت کی خصوصا جب تک جنوبی پشتونخوا کے پشتونوں کو متحدہ پشتون صوبہ میں ضم نہیں ھوتا اس وقت تک صوبہ بلوچستان میں زندگی کے ہر شعبے میں پشتونوں کی بلوچ بھائیوں کی مساوی حیثیت دلانا اور ہمسایہ ممالک بالخصوص افغانستان کے ساتھ خوشگوار تعلقات کو فروغ دینا اور افغانستان کی خودمختاری اور سالمیت کا احترام کرنے کے لئے پرزور اور مدلل آواز اٹھایا۔۔ بی بی سی کے رپورٹ کے مطابق شہید محمد عثمان خان کاکڑ کی نماز جنازہ میں 13 لاکھ سے زائد افراد نے شرکت کی جو کہ جنوبی ایشیا میں کسی سیاسی رہنما کا سب سے بڑا نماز جنازہ سمجھا جاتا ہے۔ نماز جنازہ میں 13 لاکھ لوگوں کی قابل ذکر شرکت ان کی دلیرانہ اور عوام دوست سیاست کی حقیقی نوعیت کو ظاہر کرتاہے۔
شہید محمد عثمان کاکڑ کی سیاست کا مرکز پسماندہ لوگوں کی آواز کو مضبوط کرنے پر مرکوز تھا انہوں نے بلا رنک و نسل، ذات پات اور عقیدہ سے بالاتر ہو کر خدمات سرانجام دی۔ شہید محمد عثمان کاکڑ سیاسی رہنما کے ساتھ ساتھ ایک ممتاز سماجی شخصیت بھی تھے۔ وہ سماجی زندگی میں محبت، پیار ، خلوص اور انسانیت کے حقیقی علمبردار تھے۔ ان کی مخلصانہ اور مثبت رویے نے مختلف قوموں اور طبقوں کےدل جیت لیئے اور کروڑوں لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ وہ ہمیشہ لوگوں کی خدمت کے لیے حاضر رہے اور کسی کو مایوس نہیں کرتے ۔ ان کا یہ پختہ یقین تھا کہ سیاست ایمانداری، قربانیوں اور انسانی خدمت کا نام ہے۔ جب وہ کسی کی مشکل کو آسان اور حل کر دیتے تو بہت خوشی اور سکون محسوس کرتے تھے اور یہی وجہ تھی کہ ملک بھر سے 13 لاکھ سے زائد لوگ ان کے جنازے میں جمع ہوئے۔ ان کا قول تھا کہ ذاتی مفادات سے عاری سیاست ہی قوم کو درپیش سیاسی اور معاشی چیلنجوں سے نمٹنے کا حتمی حل ہے۔ ان کا ماننا تھا کہ سیاست خلوص اور پسماندہ لوگوں کی خدمت کے جذبے پر مبنی ہونی چاہیے۔ سچ پوچھیئے تو،ان کا کردار اور میراث مجموعی طور پر، دوسرے سیاستدانوں سے بالکل برعکس ہے۔ وہ غیر جمہوری قوتوں کی مخالفت میں پرعزم رہے خصوصا ان قوتوں کے جو آئینی عملداری اور بالادستی کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے تھے ۔ ملک کے سیاسی معاملات میں غیر آئینی قوتوں کی مداخلت کے خلاف لڑتے ہوئے مختلف جمہوری تحریکوں میں ان کی نمایاں تاریخی خدمات قابل تحسین ہیں۔ شہید محمد عثمان کاکڑ پاکستان میں طالب علم رہنما کے طور پر سرگرم رہے خصوصا پاکستان پروگریسو اسٹوڈنٹس الائنس (پی پی ایس اے) اور 1983 میں تحریک بحالی جمہوریت (ایم آر ڈی) میں سیاسی کارکن کی حیثیت سے بھرپور حصہ لیا اور ہر آمرانہ حکومت کی بھرپور مخالفت کی اور پاکستان میں آئین کے استحکام اور پارلیمنٹ کی بالادستی کے لیے مضبوطی سے کھڑے رہے اور کسی بھی ایسی کوشش کی سختی سے مخالفت کی جو آئین کی خلاف ورزی اور پارلیمنٹ کی بالادستی کے خلاف ھو۔۔2015 سے 2021 تک سینیٹ آف پاکستان میں اپنی تمام تقاریر کے دوران انہوں نے آئین کی بالادستی، جمہوریت کی مضبوطی خصوصا مظلوم عوام اور محکوم اقوام خاصکر پشتونخوا وطن کے بنیادی مسائل کو حل کرنے پر زور دیتے رہے وہ ان غیر جمہوری قوتوں کو جو آئین کو ایک کاغذ کے ٹکڑے سے زیادہ کچھ نہیں سمجھتے تھے ان کے سخت مخالف تھےاسی بناء پہ ان کی سیاسی جدوجہد دوسرے رہنماؤں سے مختلف تھی۔
پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کو مقبول بنانے کیلئے انہوں نے گھر گھر مہم چلائی اور پارٹی کے اندر سخت نظم و ضبط قائم کیاا اور اسے ایک انقلابی پارٹی میں تبدیل کیا حقیقت میں 2013 کے عام انتخابات میں پشتونخوا ملی عوامی پارٹی جو جنوبی پشتونخوا اور بلوچستان کی واحد سب سے بڑی جماعت کے طور سامنے ائی یہ صرف اور صرف انکی قائدانہ صلاحیتوں کے مرہون منت تھی لیکن بدقسمتی سے پارٹی میں ذاتی مفادات اور اقرباء پروری نے پشتونخوا ملی عوامی پارٹی جیسے منظم پارٹی میں انتشار پیدا کیا اور 2013 سے لیکر 2022 تک پارٹی کے تمام اداروں خاصکر مرکزی و صوبائی کمیٹیوں کو قصدا مفلوج بنایا تاکہ کوئی بھی وزیر یا دوسرے عہدیداران کسی فورم کو جوابدہ نہ ھو بلکہ ایک شخص یا ایک خاندان کو جوابدہ ھو۔۔
شہید محمد عثمان کاکڑ ہمیشہ اجتماعی بصیرت اور پارٹی کے اداروں کی فعالیت اور پارٹی کے اداروں کی بروقت اور مسلسل اجلاس کی انعقاد پر یقین رکھتے تھے تاکہ پارٹی کے مرکزی رہنماؤں سے لیکر کارکن تک اداروں کو جوابدہ ھو ۔شہید محمد عثمان کاکڑ کی ہمیشہ یہ سیاسی کوشش تھی کہ محکوم اقوام خاصکر بلوچ اور پشتونوں کو متحد کرکے انکے حقوق حاصل کرسکے انکا ماننا تھا کہ پشتونوں اور بلوچوں کے غم اور دکھ ایک جیسے ہیں لہذا ایک دوسرے کے حقوق کا احترام کرتے ہوئے مشترکہ جدوجہد انتہائی لازم ہے۔ سینیٹ آف پاکستان میں اپنے الوداعی خطاب کے دوران، بہادر سینیٹر محمد عثمان کاکڑ نے جرأت مندی کے ساتھ ایوان کے ارکان کے سامنے جمہوریت کی مضبوطی، پارلیمنٹ کی بالادستی، محکوم اقوام خاصکر پشتونوں کی حقوق کےلئے انکی مستقل وابستگی کی وجہ سے جان سے مارنے کی دھمکیوں کے بارے میں بتایا۔ ممکنہ خطرناک نتائج سے پوری طرح آگاہ ہونے کے باوجود انہوں نے واضح کیا کہ وہ جمہوریت کی وکالت کرنے اور سیاسی معاملات میں کسی بھی غیر جمہوری مداخلت کے خلاف بات کرنے سے کسی صورت پیچھے نہیں ہٹینگے اور اس بات پر اصرار کرتے رہے کہ “میری زندگی سے کوئی فرق نہیں پڑتا؛ جو سب سے اہم ہے وہ ہے میرے لوگ یعنی عوام،اور اس ملک میں جمہوریت اور پارلیمنٹ کی بالادستی۔ بلاشبہ، 18ویں ترمیم پاکستان کی سیاست اور آئینی تاریخ میں ایک اہم سنگ میل ہے، جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ 18ویں ترمیم کے ذریعے صوبوں کو بااختیار بنایا گیا، اور غیر جمہوری قوتوں کے کردار سے گریز کیا گیا۔ لیکن اس دوران 18ویں ترمیم کے رول بیک کرنے پر بحث ہوتی رہی۔ اس پس منظر میں سینیٹر محمد عثمان خان کاکڑ نے 18ویں ترمیم کے ممکنہ رول بیک اور ملک میں صدارتی نظام کے نفاذ پر تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ وفاقی اکائیاں ان تبدیلیوں کے خلاف سخت ترین مزاحمت کریں گی۔ پاکستان اس وقت سیاسی اور معاشی بحران کا شکار ہے اور پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہیں ایسی گھمبیر صورتحال میں ملک کے موجودہ بحران کا حل شہید محمد عثمان کاکڑ کی وراثت کو عملی جامہ پہنانے میں مضمر ہے یقننا اس ملک میں شہید محمد عثمان کاکڑ کی میراث جتنی مضبوط ہوگی، غریب عوام اتنے ہی خوشحال ہوں گے۔