تحریر: عبدالکریم
واحد بلوچ نےاپنے بھائی کے قتل کے بعد آبائی علاقے کو چھوڑ کر ہوشاب کو اپنا مسکین بنایا تاکہ ان کا خاندان امن کی فضا میں زندگی گزرا سکے ۔ ان کے بچے تعلیم کے زیور سے آراستہ ہوں ۔ جب بلوچستان میں شورش عروج پر تھی ۔ مکران کے مختلف علاقے اس کی لپٹ میں تھے ۔ لیکن ہوشاب دیگر علاقوں کے نسبت پرامن تھا ۔ اس کا اہم سبب یہاں کے باشندوں کی امن سے محبت تھی ۔ اسی سوچ نے واحد کو قائل کیا وہ ہوشاب کو اپنا مسکین بنالے ۔
واحد نے اپنا گھر تو ہوشاب منتقل کردیا لیکن خود بچوں کا مستقبل بہتر بنانے اور گھر کا نظام چلانے کیلئے مزدوری کرنے دبئی کا رخ کیا۔ لیکن انہوں یہ کبھی نہیں سوچا تھا کہ ایک دن ہوشاب کا امن اس کی امانت میں خیانت کرکے اس کے بچے چھین کر اسے تربت کی سخت گرمی اور وادی کوئٹہ کی سخت سردی میں اپنے بچوں کے میتوں کے سرہانے بیٹھ کروقت کے بےحس حکمرانوں کے آگئے حصول انصاف کیلئے ہاتھ پھیلا نا پڑے گا۔
یاد رہے گزشتہ ہفتے تربت سے 102 کلومیٹر شمال کی طرف واقع ہوشاپ میں لواحقین کے مطابق گھرکے قریب مارٹر گولہ لگنے کی وجہ سے واحد کے دو بچے جاں بحق اور ایک بچہ زخمی ہوا ۔ زخمی بچے کو علاج کی خاطر کراچی منتقل کیا گیا ۔ جبکہ جان بحق دو بچوں کی لاشیں لواحقین نے احتجاج ریکارڈ کروانے کی خاطر تربت منتقل کئے ۔ جہاں وہ سخت گرمی میں تربت کے شہید فدا چوک میں دھرنا دے کر بیٹھ گئے۔
تربت میں شنوائی نہ ہونے کے باعث واحد بلوچ اور ان کے اہلخانہ جس میں بچے، بوڑھے اور خواتین بھی شامل ہیں کوئٹہ کا رخ کیا ۔ کوئٹہ میں گورنر ہاوس کے سامنے گزشتہ چار دن سے دھرنا دیے ہوئیں ہیں ۔ تاحال حکومت کی جانب سے ان کے ساتھ باضابطہ مذاکرات نہیں ہوئے ہیں ۔ ویسے حکومت مذاکرات تب کرتی ہے جب اسے اپنے معاملات سے فرصت ملے حکومتی اراکین اسمبلی تو حکومت توڑنے اورجوڑنے میں مصروف ہیں ۔ ویسے بھی عوامی مسائل ان کی کبھی ترجیح نہیں رہے ہیں ۔
یاد رہے گزشتہ دو مہینے سے بلوچستان میں لاشوں کے ساتھ یہ تیسرا دھرنا ہے ۔ حکومت اتنی بےحس ہے کہ انہیں لاشوں کی تعظیم کا بھی خیال نہیں ہے ۔ ان کی حکمت عملی یہ ہوتی ہے کہ دھرنے کو جتنا طول دیاجاسکتا ہے دیا جائے کیونکہ حکومت کو تو کچھ فرق پڑتا نہیں لیکن وہ اس حربے سے لواحقین کے ساتھ معمولی سے کھوکھلے وعدہ کرکے ان کو لاشیں دفنانے پر آمادہ کرلیتے ہیں ۔
بلوچستان میں لاشوں کے ساتھ طویل دھرنوں کی روایت رہی ہے ۔ یہاں کے ہرطبقے نے اپنے پیاروں کے جسد خاکی کے سرہانے بیٹھ کر دھرنے دیئے ہیں لیکن اس کا نتیجہ ہچ ندارد ۔ ویسے نہ وفاقی حکومت نے اور نہ صوبائی حکومت نے بے گناہ لوگوں کے قتل عام کا نوٹس لیا اور نہ ملک کے اعلیٰ عدلیہ نے ۔ یہاں کے لوگوں کی زندگیاں غیر محفوظ ہیں۔ ان کی زندگیوں کی تحفظ کیلئے تاحال کوئی ٹھوس اقدام نہیں اٹھایا گیا ہے اور نہ قتل وغارت کرنے والے ذمہ داران کا سراغ لگایا گیا ہے ۔ بلوچستان میں جتنے بھی دھرنے ہوئے ہیں۔ ان کا ایک اہم مطالبہ یہی رہا ہے کہ ان کی زندگی کے تحٖفظ کو یقینی بنایا جائے ۔ لیکن اس بات کی زمہ داری لینے والا کوئی نہیں ہے ۔ اس بات کا ثبوت یہ ہے کہ گورنر ہاوس کے سامنے جاری دھرنا دینے والے افراد سے کسی حکومتی شخص نے رابطہ نہیں کیا ۔ حالانکہ جہاں پر دھرنہ دیا جارہا ہے اس کے قریب وزیراعلیٰ ہاوس اور سیکرٹریٹ بھی ہے جہاں تمام وزرا بیٹھتے ہیں ۔
یہ ایک بہت بڑا المیہ ہے بلوچستان کا عام آدمی یہ بات سوچنے پر مجبور ہوچکا ہے کہ وہ لاوارث ہے ۔ ان کے دکھوں کا مداوہ کرنے والا کوئی نہیں ہے ۔ حکومت کو اس بابت سنجیدگی سے سوچنا چاہیے انھیں عوام کو دیوار سے لگانے کا عمل مہنگا پڑسکتا ہے۔