تحریر:ابراہیم بہرانی
بلوچستان کی سیاست نے ہمیشہ رموز و اصرار دیکھے ہیں چاہے حالیہ وفات پانے والے بلوچستان کے پہلے وزیر اعلیٰ سردار عطاء اللہ مینگل کی حکومت کا گرائے جانے سے لیکر بلوچستان عوامی پارٹی تشکیل تک ایک لمبی داستان کار فرما ہے لیکن میں یہاں اب جو صورتحال ہے اس کے بارے میں لکھنے کی جسارت کرنے جا رہا ہوں بلوچستان عوامی پارٹی کو اپنی آنکھوں سے بنتے دیکھا جب جوک در جوک لوگ آ کر اس پارٹی میں شمولیت کر رہے تھے سب مشہور زمانہ ہستیاں اس پارٹی میں شامل ہو رہی تھیں اس جب اس پارٹی کا منشور پیش کیا گیا اس رات تقریروں میں کہا گیا کہ اس پارٹی کو بنانے کا مقصد یہ ہے کہ کوئی بھی وفاقی پارٹی آکر ہمارے بلوچستان کے لوگوں کی قسمت اور سیاست میں ردوبدل کے فیصلے ناں کرے اس نعرے کے نیچے ایک تگڑی پارٹی میدان عمل میں آئی اور اپنے پہلے سینیٹ کے الیکشن میں بلوچستان سے سات سیٹیں جیت کر ناصرف سینیٹ میں پنہچی بلکہ اکثریت کی حاصل کرنے میں ہوکر اپنا چئیرمین سینیٹ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ایک غیر معروف سیاستدان صادق سنجرانی کو منتخب کروا کر اپنے جھنڈے گاڑھ دیئے پارٹی کے صدر جام کمال بھی انتہائی متحرک نظر آئے انہوں نے دن رات محنت کرتے ہوئے بلوچستان میں الیکشن 2018 کی تیاریاں شروع کرتے ہوئے مشہور سیاستدانوں کو پارٹی میں شمولیت کروائی جس میں سردار عبدالرحمن کھیتران کی رہائش گاہ خود چل کر گئے ایک اور شمولیت مجھے اس لیئے یاد ہے کہ صوبائی وزیر مٹھا خان کاکڑ جب (باپ) پارٹی میں شمولیت کر رہے تھے تو انہیں پارٹی کے صدر جام کمال کا نام تک یاد نہیں تھا جو انہوں وہاں بیٹھے دیگر لوگوں سے دوران پریس کانفرنس پوچھا تھا یہ ایک مظبوط پارٹی بن کر سامنے آئی جس نے 2018 کے الیکشن میں کئی پارٹیوں کو پچھاڑتے ہوئے اکثریت سے کامیاب ہوکر بلوچستان میں اے این پی،بلوچستان نیشنل پارٹی(عوامی)،پی ٹی آئی،جمہوری وطن پارٹی اور ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت قائم کی جس میں وزیر اعلیٰ جام کمال خان کو منتخب کیا گیا اس حکومت کے پہلے بجٹ تک معاملات بخیروخوبی چل رہے تھے لیکن پہلا بجٹ پیش ہوتے ہی نہ صرف اپوزیشن کی جانب سے احتجاج کیا گیا بلکہ بلوچستان عوامی پارٹی کے رہنما خود اپنی پارٹی کے وزیر اعلیٰ سے نظر آنے لگے جس کے بعد معاملاتِ سلجھنے کی بجائے الجھتے گئے اور سب سے پہلے صوبائی وزیر بلدیات سردار محمد صالح بھوتانی نے اپنی ناراضگی کا اظہار کیا جو بڑے عرصے تک چلتی رہی جس کا خمیازہ لوکل گورنمنٹ کے ملازمین کو بھی تنخواہوں کی رکاوٹ کی صورت میں بھرنا پڑا اور آخر کار سردار صالح بھوتانی نے اپنی وزارت سے استعفیٰ دے دیا اسپیکر بلوچستان اسمبلی میر عبدالقدوس بزنجو کے اختلافات بھی وقتا فوقتاً سامنے آتے رہے جو کئی بار بگڑنے کے بعد معمول پر آ جاتے تھے کچھ عرصے بعد دیگر حلقوں سے بھی اس طرح کی ناراضگی کی بھنک پڑتی رہی لیکن سردار یار محمد رند کے استعفے کے بعد معاملات بہتری کی طرف نہ لوٹ پائے اور یوں گتھی یوں کھلی کہ وزیر اعلیٰ جام کمال اپنی پارٹی کے گیارہ اراکین سمیت 14 اراکین کو ناراض کر دیا جن میں مشیر اور وزراء بھی شامل ہیں لیکن ان کی ناراضگی کو بھانپتے ہوئے اپوزیشن نے پہلے وزیر اعلیٰ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک اسمبلی میں جمع کرائی جسے گورنر ہاؤس نے تکنیکی طور پر نا مکمل قرار دیتے ہوئے اسے اسمبلی سکریٹریٹ کو واپس کر دیا جس پر اجلاس نہیں بلایا جاسکتا تھا تو باپ پارٹی کے ناراض اراکین کھل کر سامنے آئے اور وزیر اعلیٰ بلوچستان کو مشورہ دیا کہ وہ خود مستعفی ہو جائیں ورنہ ہم کوئی قدم اٹھائیں گے جس پر وزیر اعلیٰ جام کمال نے ہہ مؤقف اپنایا کہ چند لوگوں کے کہنے پر استعفیٰ نہیں دوں گا اس کے ان 14 ناراض اراکین جن میں بلوچستان عوامی پارٹی کے 11 بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی) کے 2اور پی ٹی آئی کا ایک رکن شامل ہیں کی جانب سے وزیر اعلیٰ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک اسمبلی میں جمع کرا دی گئی جس کے یہ دیکھنے کو ملا کے بلوچستان کی تمام تر سیاست اور لوگوں کی قسمت کے فیصلے کو لینے تمام رہنما اسلام آباد منتقل ہوگئے وہاں پر کئی خفیہ اور ظاہری ملاقاتیں کی گئیں جن میں کوششیں کی گئیں کہ اس بحرانی کیفیت کو کیسے ختم کیا جائے اور اچانک سب واپس کوئٹہ پنہچے ہیں اور پنہچتے ہی گورنر بلوچستان سید ظہوراحمد آغا نے اسمبلی اجلاس 20 اکتوبر بروز بدھ طلب کر لیا ہے جس میں وزیر اعلیٰ کے خلاف عدم کی تحریک پیش کی جائے گی اور اس پر ووٹنگ کرائی جائے گی صوبائی اسمبلی 65 ارکان پر مشتمل ہے عدم اعتماد کی تحریک کو کامیاب بنانے کے لیے 33 ارکان کی حمایت چاہیے ہوگی اب تک جو اعداد شمار سامنے آ رہے ہیں ان میں اپوزیشن کے 24 اور 14 ناراض اراکین کو ملا کر یہ تعداد 38 بنتی ہے جبکہ دونوں اطراف سے یہ دعوے بھی کیئے جا رہے ہیں اندرونی سطح پر بھی ردوبدل ہوسکتی جس نتیجہ بدل سکتا بحرحال اب فیصلہ بیس اکتوبر کو سامنے آئے گا تو کہا جا سکتا ہے کہ اصل مقابلہ تو اب شروع ہوا ہے