Ultimate magazine theme for WordPress.

نظام ایک اسلامی ریاست کا     

0

تحریر نبیلہ ناز

کیا یہ ایک اسلامی نظام حکومت ہے ؟
ہم کس بنیاد پہ کہتے ہیں کہ یہ اسلامی نظام حکومت ہے ؟
نا ہی نظام حکومت ، نا ہی تعلیمی نظام ، نا حفاظتی نظام ، نا صفائی و ستھرائی کا نظام ، جو کہ ہمارے ایمان کا نصف ہے ۔

وہ ایمان و اسلام کہ جس پہ ہم قتل و غارت تک کر دیتے ہیں اسلام کے نام پہ اپنی زندگیوں میں صرف آرام اور وہ چیز چاہتے ہیں جو ہمیں پسند ہو ، جہاں آسانی چاہتے ہیں وہی اسلام کا رخ موڑ لیتے ہیں ۔

بات ہوتی ہے ایک نظام کی ایک سسٹم کی ایک اسلامی ریاست کا سسٹم ، اور ہمارا سسٹم جہاں نا انصاف ہے ، نا روزگار ہے ، نا ہی خوشحال زندگی ، ہر جانب چیختی چلاتی معصوم انسانی جانیں جو ہمہ وقت خود کو بچاتی نظر آتی ہیں اس نظام حکومت سے ،  کبھی اس ریاست کے انصاف سے ۔۔ترقی کے دھانے پہ کھڑی یہ دنیا جہاں سیاروں پر جانے کو تیار ، وہاں ہم ابھی تک اپنے نامعلوم افراد کے چکر میں پھنسے ہیں

ہم آج تک ان نا معلوم افراد کو بے نقاب نہیں کر سکے شاید یہی ہماری ترقی کی راہ کی رکاوٹ ہیں  ؟
ہم آج تک یہ فیصلہ نہیں کر سکے کہ کس جرم کی سزا قانون نے دینی ہے اور کس کی ہم نے ۔
زیادہ دور نہیں جاتے پولیو کی بات کرتے ہیں ، افریقہ تک میں ، دنیا کے جنگلوں تک میں موجود تمام انسانوں میں اسکا خاتمہ ہو چکا ہے، نہیں ہوا تو بس ہماری اسلامی ریاست میں نہیں ہوا ،ہم اب تک ہر چند مہینوں بعد ایک لشکر تیار کرتے ہیں پولیو ورکرز کے نام پہ ۔

پھر ہم کہتے ہیں کہ ہم تو ان عظیم و شان نبی کی امت ہیں ، یہ کیوں بھول جاتے ہیں ساتھ میں وہ نبی تو کافروں کے ساتھ بھی صلہ رحمی کرتے تھے ہم تو کافروں کے ساتھ کیا اپنوں کے ساتھ بھی بے ایمانی، دھوکہ اور نا جانے کیا کچھ کرتے ہیں ،
ہم سے زیادہ دوسرے مذہب کے لوگ عمر رضہ کے بنائے گئے قانون کی پاسداری کرتے ہیں ، ناپ تول میں ایمانداری کوئی ان سے سیکھے جو مسلمان نا ہوتے ہوئے بھی اپنے خدا سے ڈرتے ہیں ۔

ہم سے ایک مکمل فیصلہ تو ہوتا نہیں آج تک ، کبھی بنی بنائی سڑکوں سے پائپ لائنیں ڈالنے کا خیال آتا ہے ، تو کبھی بنی بنائی عمارتوں کو گرا کر سڑکوں کو چوڑا کرنے کا خیال آتا ہے ،
آج تک تعلیمی نصاب کو بدلا نہیں وہی بچوں سے کاپیاں کالی کرنے کی روایت چلی آ رہی ہے ،
اگر بات کی جائے سیاسی شعور کی تو طلباء و طالبات جو اس ملک کا سرمایہ ہیں انہیں سیاسی شعور دینے کے بجائے ایک پر اعتماد شہری بنانے کے بجائے ، انکی سرگرمیوں کو تنظیموں کا نام دے کر انہیں خاموش کروا دیا جاتا ہے ۔

دنیا نئی ٹیکنالوجی، اور ایجاد و دریافت میں مصروف ہے اور ہم بھی تک ایک وقت کی روٹی سے لیکر اپنی جان و عزت کی حفاظت میں لگے ہیں۔

یہ کیسا اسلامی نظام ہے ایک اسلامی ریاست جہاں آپ ابھی تک کوئی ایسا قانون عمل میں نہیں لائے جس سے باقی لوگ عبرت حاصل کریںاگر کسی ایک مجرم کو بھی اسلامی قانون کے مطابق تخت پہ لٹکایا ہوتا تو آج ہزاروں کی تعداد میں یوں معصوم پھولوں معصوم جانوں کے ساتھ زیادتی نہیں ہوتی ، یوں ماؤں کے جگر ان کی آنکھوں کے سامنے شہید نہیں ہوتے ، یوں کسی کی جرات نہیں ہوتی کہ وہ گھروں میں گھس کہ آپکے باپ بھائیوں کو اٹھا کے لی جائیں ، لیکن کون ؟ کون یہ سب سوچے ؟ ہمارے حکمران جن کی آنکھیں صرف تخت و تاج اور پیسے پہ ہے ۔

بات یک طرفہ نہیں ہوتی اگر حکمران ایسے تو عوام
بھی کم نہیں ، بڑی بڑی ڈگریاں حاصل کر کے اپنے ملک آتے ٹ اور ملک میں داخل ہوتے ہی بڑی بڑی گڑیوں میں بیٹھ کر اپنی جہالت کو سڑکوں کی زینت بناتے ہیں ۔

کوئی پوچھنے والا جو نہیں
اگر اللہ اللہ کر کے کبھی حکومت صفائی کے انتظامات کرے تو بجائے عوام ساتھ دینے کے اس انتظام کا نام و نشان تک مٹا دیتی ہے ۔۔

وہ سہی کہتے ہیں جیسی عوام ویسے حکمران
ہر کوئی شامل ہے اس کارواں میں ، دو روپے کی کرپشن سے لاکھوں کروڑوں تک ، جس کا جتنا بس چلتا ہے سب کے سب شامل ہیں ۔۔

ریاست کے بہتر نظم کے لیے صرف حکمران نہیں بلکہ عوام کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہو گا ۔   پڑھے لکھے پاکستان کے صرف نعروں سے کام نہیں بلکہ پڑھ لکھ کہ بھی دیکھانا ہے

آپ یہ بھی پسند کریں

اپنی رائے دیں

Your email address will not be published.