رپورٹ : سہیل آبابکی
دس روز سے کوئٹہ پریس کلب سامنے احتجاج کرنےکے باوجود خضدار سے آنے والے نوجوانوں کا مسلہ حل نہ ہو سکا
تفیصلات کے مطابق ساتھ دسمبر بروز سموار خضدار سے 25 کے قریب نوجوانوں نے لیویز میں مبینہ بھرتیوں کے خلاف خضدار پریس کلب سے کوئٹہ پریس کلب تک پیدل مارچ 13 دن میں طے کیا
ڈیلی الجزیرہ سے بات کرتے ہوئے لیویز بھرتیوں سے متاثرہ نوجوان نثار ابابکی نے کہا کہ جون 2020 میں ہم نے لیویز میں ٹیسٹ دیا تھا اور جب نتا ئج آئے تو اس لسٹ میں ان ناموں کو ڈالا گیا جو دوڈ اور انٹریو میں شامل نہیں تھے. جس کے بعد ہم نے ان کے خلاف مسلسل ساتھ دن خضدار میں احتجاج کیا اور اپنے حق کے لیے پریس کانفرنس بھی لیکن اس کے باوجود کسی نے بھی ہماری آواز نہیں سونی ۔
نثار نے مزید بتایا کہ دسمبر کی سخت سردی میں ہمیں مجبوراً لانگ مارچ کا فیصلہ کرنا پڑا خضدار پریس کلب سے مارچ شروع کرنے کے بعد جب ہم زہری کرس پر پہنچے تو ایسٹیٹ کمیشنر خضدار عبدالمجید سرپرہ نے مزکرات کی درخواست کی اور مسلسل دو گھنٹے کا وقت گزارنے کرنے بعد اے سی خضدار نے کچھ کمیٹی ممبرز کو ڈی سی خضدار ولی محمد بڑیچ سے ملاقات کراوئی اور ڈی سی خضدار نے احتجاج ختم کرنے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ آنے والے سال میں مزید پوسٹ آئے گئے تو انشااالله آپ سب کو موقع دیا جائے گا ۔ تو ہم نے ڈی سی صاحب سے درخواست کی ہمیں لیٹر پر لکھ کر دے تاکہ ہم مطمئن ہوں جائے ۔لیکن ڈسی صاحب نے انکار کر دیا ۔اور مجبوراً ہمیں اپنا لانگ مارچ جاری رکھنا پڑا ۔
انہوں نے مزید کہا کہ لانگ مارچ میں ہمیں بہت مشکلات پیش آئی خصوصاً قلات جیسے سرد علاقہ جو پورے پاکستان میں سردی ترین علاقہ مانہ جاتا ہے اور دسمبر میں بہت سرد ہوتا ہیں اس لیے ہمیں ڈسٹک قلات سے گوزرتے وقت بہت مشکلات کا سامنہ کرنا پڑا لیکن مشکلات کے باوجود ہم نے اپنا لانگ مارچ جاری کیا اور 316 کلو میٹر کا پیدل سفر طے کرنے کے بعد ہم کوئٹہ پریس کلب پونچھ گئے
ثنار احمد کا مزید کہنا تاکہ جب ہم کوئٹہ پریس کلب پہنچے تو ہم نے احتجاج کیا لیکن اس کے باوجود کسی نے بھی ہم سے باتھ کرنے کی کوشش نہیں کیا اور ہم فیصلہ کیا کہ ہم بوک ہڑتال پر بیٹ جائین گے لیکن انتظامہ کی طرف سے ہمیں کیمپ لگانے نہیں دیا گیا اور اس سخت سردی میں ہم دس روز سے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے روڈ پے بیٹے ہوئے ہیں گزشتہ روز موسم زیادہ خراب ہونے کی وجہ سے ایک دوست عمران خان کی طبیعت بہت خراب ہو گیا تھا لیک اس کے باوجود اب تک گورمنٹ کا کوئی نمائندے نے ہم سے مزاکرات کرنے کی کوشش نہیں کی اور ہم تب بی احتجاج پے بیٹ جائین گے جب تک ہمارے مطالبات منظور نہیں ہو جاتے ہیں اور اگر ہمارے کسی دوست کو خودانہ خواسہ کچہ ہو گیا تو زمادار گورمنٹ ہو گا اہم وزیراعلیٰ جام کمال ، وزیرداخلہ میر ضیاء لانگو ، چیف سیکٹری بلوچستان فضل اصغر ،اور ڈی جی لیویز مجیب الرحمان قمبرانی سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ہمارے مطالبات کو جلد سے جلد حل کرے