(بلوچستان کے حالات حدود وقیود)
تحریر:-محمد فاروق پندرنی۔
الجزیرہ ویب ڈیسک
یقینن آج بلوچستان کے حالات پچھلے کہی ادوار سے انتہائی مختلف و پیچیدہ ہیں۔جس کے اثرات عوام پر بل واسطہ یا بلاواسطہ پڑھ رہے ہیں۔ دوسری جانب فریق دوہم جس میں بہرونی طاقتیں اندرونی عناصر اپنی مقاصد حاصل کرنے میں سرگرم ہیں۔
یقینن تاریخ ہمیں حالات واقعات کے پس منظر سے واقف تو کرتی ہے۔مگر تاریخ بار بار دورانہ انتقام لینا حالات کو مزید سنگنیت کی طرف لے جاتاہے۔
ماضی میں ہمیں کہی ایسے نماہندہ ملتے ہیں۔ جنوں نے تاریخی غلطیوں کو مذید دورایہ جہاں ناصرف صوبہ بلکہ ریاست کی ترقی میں مذید رکاوٹیں ڈالی۔ جیسکہ آٹھ اپریل 1976کو بھٹوں نے سرداری نظام کو فخریہ انداز میں ختم توکیا اور یہ بھی کہا جسے سرداری نظام چائیے وہ ہندوستان جائے سردار جی کے پاس یا تو افغانستان سردارداؤد کے پاس جائے جبکہ بھٹوں کے پاس اس نظام کے خاتمہ کے بعد متبادل میں کوئی اور نظام نہیں تھا جہاں سے حالت مذید بگاڑ کی طرف چلے گئے۔
بھٹوں کی انہی تلخ رویوں سے پیپلز ارٹی کے کہی اہم ساتھیوں پارٹی سے مستعفی ہوئے۔جن میں معراج محمد خان، جے اے رحیم، ڈاکٹر مبشر حسن، شامل تھے
بلوچستان میں آج تک پانچھوں انسرجنسی جاری ہے ہر بغاوت کے پیھچے تلخ رویہ جس نے حالت کو سلجھنے کے بجائے مزید بگاڑہ۔
علیدگی کی جاری یہ ادوار انتہائی خطرناک ہے جہاں حالت تعلیمی نوجوانوں کے ھاتوں میں جارہاہے۔پاکستان انسٹیوٹ آف پیس کے مطابق گزرشتہ برس حملوں میں مذید اضافہ ہوچکا ہے۔جہاں صرف کراچی میں 2005سے اب تک 29 حملہ ہوچکے ہیں۔
بلوچستان میں اب تک پانچ فوجی آپریشن کیے جاچکے ہیں۔جس کا مقصد دہشتگردی کا خاتمہ ہے بلکہ دوسری جانب ایک نہی انسرجنسی کا آغاز ہوا۔
سرکاری اعدادوشمار کے مطابق دہشتگردی سے نمٹنے کے لیے روزانہ کے بنیاد پر 130آپریشن کیے جارہے ہیں جن میں افواج پاکستان، پولیس، قانون نافض کرنے والے ادارے شامل ہے۔ جبکہ 2024کے آٹھ ماہ میں ،193آفسران وجوان جانبجق ہوئے ہیں
دوسری جانب دنیا ملٹی پاورز کی جانب گامزن ہے۔جہاں بین الاقوامی تعلقات ٹیکنالوجی اسٹرجیک لوکیشن یا بھر انڈرگرائونڈ منرلز کے بنیاد پر طہ کہے جاتے ہیں۔جس کی مثال گزرشتہ سال انڈیا میں 20-G کی میٹنگ ہے جہاں افریکی ملک کو شامل کیاگیا جہاں سونے کے بے شمار زخاہر شامل ہے۔
اسی طرح سی پیک BRI کی چھٹی کوری ڈورہے۔جو انتہائی سست روی کا شکار ہے۔48 بلین ڈالر سے شروع ہونے والا یہ پروجیکٹ سیکورٹی اشوز ودیگر مثائل کی بنا پر تاخیر کا شکار ہونے کے بعد اب 68بلین ڈالر تک جا پہنچاہے۔جہاں بلوچستان سے ہٹ کر گوادر کے مقامی لوگوں کو ناصرف نہے مواقع بلکہ رویاتی روزگار بھی چھنی جاچکی ہے۔
یقینن آج کا دور جدید ہے مگر انتہائی حساس بھی ہے۔ففت جنریشن وار کی زد میں آکر وقتی طور پر ریاستی معملات نارمل تو لگتے ہیں مگر ان کے نتاہج انتہائی سنگین رخ اختیار کر جاتے ہیں۔
ڈاکٹر مالک بلوچ کی دور حکومت میں ریاست پاکستان نے علیدگی پسند بلوچوں سے مزاکرات تو کی لیکن کوئی خاص نتیجہ اخز نہیں کیا جاسکا۔جہاں ڈاکڑ ملک کے مطابق ان کے مطالبات ایسے تھے جنہیں ایک یونین کانسل کا ناظم بھی حل کرسکتاتھا مگر نا معلوم وجوہات کی بنا پر معملات آگے بڑھ نہیں سکے۔
مصنوعی لیڈرشب اور و عوامی معملات سے لاتعلقی ایک بڑی وجہ ہے۔ سرکار کے مطابق محدود اقدامات کیے جارہے ہیں۔مگر وصائل کا غلط استعمال جہاں چند چنے ہوہے عناصر کے علاوہ عام عوام کو میثر نہیں۔
بلوچستان میں حقیقی آئین کے مطابق ساہنسی بنیادوں پر حالات کا جائزہ لیا جائے ماضی کی غلطیوں کو ردکیا جائے۔اجتماعی فیصلہ حقیقی لہڈرشپ کی چنائوں ودیگر فالٹ لائن کا گہرائی سے جائزہ لے کر وہ پالیسیاں مرتب دی جانی چائیے جس سے اجتماعی ترقی ممکن ہوسکے۔