Ultimate magazine theme for WordPress.

آئندہ پانچوں سالوں میں خشک سالی ہوگی جس سے موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کے ساتھ معاشی بحران کا بھی خدشہ ہے،اسلامک ریلیف

0

کوئٹہ (آن لائن)موسمیاتی تبدیلی اور پانی کے ماہرین نے خبردار کیاہے کہ موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے اور پانی کومحفوظ بنانے کیلئے موثر اقدامات اٹھائے جائیں بصورت دیگر بلوچستان کے 28سے30اضلاع میںآئندہ پانچوں سالوں میں خشک سالی ہوگی جس سے موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کے ساتھ معاشی بحران کا بھی خدشہ ہے ،ہم پانی کی انسکٹرکشن نہیں بلکہ مائننگ کررہے ہیں

،پانی کومحفوظ بنانے کیلئے قانون پر سخت عملدرآمد کی ضرورت ہے ۔گزشتہ روز اسلامک ریلیف کے زیراہتمام حکومت بلوچستان کے تعاون سے نیشنل واٹر کانفرنس بلوچستان کاانعقاد کیاگیا

کانفرنس میں صوبائی سیکرٹری پبلک ہیلتھ انجینئرنگ صالح محمد بلوچ، منیجنگ ڈائریکٹر واسا حامد لطیف رانا،اسلامک ریلیف کے ایریا پروگرام مینیجر محمد عیسی طاہر اور ایڈوکیسی آفیسر رضوان الدین کاسی ایڈووکیٹ، واٹرایکسپرٹ واکنامسٹ ڈاکٹرپرویز امیر ،واہ یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹرذوالفقار احمد،آئی ایم ایس پشاور کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹرشکیل حیات،این ای ڈی یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر شفقت اعجاز ،بیوٹمز یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر ملک اختر، پبلک ہیلتھ انجینئرنگ کے چیف انجینئر پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ آغا عمران شاہ ،نیشنل پارٹی کے ڈاکٹر اسحاق بلوچ، لورالائی یورنیوسٹی کے ظہوراحمدبازئی ودیگر ماہرین نے شرکت کی ۔

صوبائی سیکرٹری پبلک ہیلتھ انجینئرنگ صالح محمد بلوچ نے کہاکہ کوئٹہ شہر کے پانی ک مسئلے کے حل کیلئے اطراف میں ڈیمز کی تعمیر جاری ہے جس کے تحت مانگی ڈیم سے یومیہ 8ملین پانی ،برج عزیز خان ڈیم سے 12ملین پانی کوئٹہ کو حاصل ہوگی جس سے شہر میں زیر زمین پانی محفوظ ہوگا،جبکہ برکچ کی پی سی ون مکمل کرلی گئی ہے

حکومت بارش کے پانی کو محفوظ بنانے کیلئے ڈیمز کی تعمیر کیلئے اقدامات اٹھا رہی ہے ،بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ ،چاغی اور گوادر میں پانی کے مسئلے کے حل سنجیدہ اقدامات اٹھا رہی ہے ،انہوں نے کہاکہ ماہرین ، ڈونرز ودیگر کے ساتھ مل کر جدید ٹیکنیکس کے ذریعے بارش کے پانی کو محفوظ کیاجارہاہے ۔منیجنگ ڈائریکٹر واسا حامد لطیف رانانے کہاکہ کوئٹہ شہر 1985ء میں 50ہزار افراد کیلئے بنایاگیاتھا اس کی اب آبادی 30لاکھ تک پہنچ گئی ہے یہاں محکمہ واسا ودیگر کے 400ٹیوب ویلز تقریباََ 3کروڑ کیوسک پانی زیر زمین سے نکال کرشہر کے 94ہزار صارفین کو فراہم کررہی ہے بدقسمتی سے 94ہزار صارفین میں صرف30فیصد سے بھی کم لوگ پانی کا بل جمع کرتے ہیں

،پانی کومحفوظ بنانے کیلئے قانون پر سخت عملدرآمد کی ضرورت ہے ،انہوں نے کہاکہ کوئٹہ شہر میں قائم واٹرٹریٹمنٹ پلانٹ 18لاکھ گیلن پانی فراہم کرتاہے جو شہر میں زراعت ،بلڈنگز کی تعمیر ومرمت سمیت دیگر چیزوں کیلئے زیر استعمال لائی جاسکتی ہے ،واسا اس سلسلے میں ہرممکن تعاون کیلئے تیارہے ۔حکومت وقت کے ساتھ ساتھ عوام پر بھی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے

کہ صاف پینے کا پانی ضائع ہونے سے بچائیں ۔واٹرایکسپرٹ واکنامسٹ ڈاکٹرپرویز امیرنے حکومت اور عوام کو خبردار کرتے ہوئے کہاکہ بلوچستان میں حالیہ مون سون میں12ملین ایکڑ فٹ پانی برسا ہے لیکن ہم صرف 2ملین ایکڑ فٹ پانی محفوظ کرسکے ہیں بلوچستان میں اس وقت18بیسن ہے موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں ہمیں سخت اثرات کاسامنا کرناپڑسکتاہے دنیا کو معیاری پروپوزل لکھنی ہوگی کہ موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں ہم کن نقصانات کاسامنا کررہے ہیں ،انہوں نے کہاکہ میں 2010اور 2022دونوں سالوں کے دوران سیلاب اور بارشوں کودیکھاہے اس بار بلوچستان موسمیاتی تبدیلی سے بہت زیادہ متاثر ہواہے موسمیاتی تبدیلی کے جواثرات ہے بلوچستان کے 28سے30اضلاع آئندہ پانچوں سالوں میں خشک سالی کاسامنا کرسکتی ہے جہاں لوگوں کو کھانے کے لالے پڑیںگے ،موسمیاتی تبدیلی کے ساتھ معاشی بحران کا بھی خدشہ ہے ۔ڈاکٹر اسحاق بلوچ نے کہاکہ پانی کومحفوظ بنانے کیلئے قوانین پر عملدرآمد اور ٹیوب ویلز کیلئے این او سی دینے سے گریز کرنا چاہیے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے پیرامیٹر کے مطابق چلیں تو کوئٹہ کے شہریوں کو یومیہ 7کروڑ کیوسک پانی کی ضرورت ہے ۔

بدقسمتی سے بلوچستان میں اب بھی انسان اور جانور ایک جگہ سے پانی پیتے ہیں ۔ظہوراحمدبازئی نے حکومت بلوچستان سے اپیل کی کہ کوئٹہ کے اطراف میں جو ڈیمیں تعمیر ہوئی ہے ان کی اسسمنٹ کرائیں تاکہ ماحولیاتی تبدیلی کے مہاجرین ممکنہ اثرات سے محفوظ رہیں۔شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے پبلک ہیلتھ انجینئرنگ کے چیف انجینئر پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ آغا عمران شاہ نے کہاکہ بلوچستان میں اس وقت18بیسن ہے

لیکن ان سب کی پیتھالوجی مختلف ہے پاکستان ایک زرعی ملک ہے لیکن یہاں پالیسی کیلئے غلط ڈائریکشنز اپنائے گئے ہیں حالات اور واقعات کومدنظررکھتے ہوئے اقدامات کی ضرورت ہے ۔

آپ یہ بھی پسند کریں

اپنی رائے دیں

Your email address will not be published.