تحریر: افنان شاہ
بلوچستان میں لڑکیوں کی تعلیم نہ ہونے کی برابر ہے۔
“”بلوچستان کی ایک بااہمت بیٹی کی تعلیم کے لئے انتھک محنت کے جہدوجد کا سفر
کوئی قابل ہو تو ہم شان کئی دیتے ہیں
ڈھونڈنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں۔
“خدا ان کی مدد کرتا ہے
جو اپنی مدد اپ کرتے ہیں””
بلوچستان میں لڑکیوں کی تعلیم نہ ہونے کی برابر ہے۔
اگر کئی بھی لڑکیاں تعلیم حاصل کریں تو ان پر کئی مشکلات ٹوٹ پڑھتے ہیں۔
ایسے ہی ایک حقیقی کہانی بلوچستان کے شہر کوئٹہ کی ایک بہادر باہمت بیٹی کی ہے کہ
جس کو تعلیم حاصل کرنے کی جنون بچپن سے ہی تھی اگر یہ کہا جائے کہ پیدائشی طور پر اس کو تعلیم حاصل کرنے کی جستجو تھی تو یہ غلط نہیں ہوگی۔
وادی کوئٹہ کے دامن میں بسنے والے ایک ایسی خاندان کی کہانی ہے یہ کہ جس کی پر دادا سے لے کر آج تک 3 پشت گزرنے کی باوجود ان کے خاندان میں کوئی اچھا خاصا پڑھا لکھا تعلیم یافتہ لڑکا اور لڑکی نہیں ملتا۔
تعلیم جیسی نعمت سے محروم اسی خاندان کی جب چھوتھی پشت میں سن 1993 میں ایک لڑکی کی پیدائش ہوتی ہے تو اس کے خاندان کے لوگوں کے لئے یہ دن بہت ہی ذیادہ خوشی کا دن تھا
کیونکہ ان کے خاندان کے چھوتھی پست میں پہلی بار بھر کسی لڑکی جیسی نعمت کی پیدائش تھی۔اور جس بندے کہ ہاں یہ باہمت لڑکی کی پیدائش ہوئی اس کی پہلی بیوی کی انتقال کے بعد یہ اس کی پہلی اولاد تھی اور خاندان والوں کے لیے انتہائی خوشی کا عالم تھا۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جب وہ لڑکی 5 یا 6 سال کی ہوئی تو اس کو ابتدائی تعلیم دینے کے لئے علاقے کے گورنمنٹ گرلز پرائمری سکول میں داخل کیا جاتا ہے۔
اور ساتھ میں وہ شام کے اوقات میں اپنے محلہ کے کسی دین دار کے پاس دینی تعلیم حاصل کرنے یعنی قران پاک پڑھنے بھی جاتی تھی۔
اور کیونکہ اکثر ہمارے بلوچستان کے کئی علاقوں میں لوگ 10 سال کے عمر تک لڑکی کو خود شوق سے سکول میں تعلیم دلاتی ہیں
جب وہ بچاری لڑکی میٹرک پاس کر لیتی ہے تو ہمارے بلوچستان کے
اکثریت کی مزاج اور ذہینی سوچ یہی ہیں کہ بس ہے آگے پڑھ کر کیا کریں گی اب یہ گھر کو سنبھالنے کے قابل ہوئی ہے تو اس کو سکول جانے سے روک دیتے ہیں یا اس کی منگنی کرکے کسی طرح گھر بیٹھا دیتے ہیں۔۔ اور گھر کو سنبھالنے کی ذمہ داری دی جاتی ہے ہیں جب تک اس کی شادی نہ ہوجاتی ہے۔
اسی طرح اس خاندان کی یہ بیٹی جن کو سکول میں داخل کروادیا تھا تو اس نے اسی سکول میں جماعت پنجم پاس کی۔اور اگے تعلیم حاصل کرنے کے لئے اپنے قریبی گورنمنٹ ہائی سکول میں خود داخلہ لیا
اور جماعت ششم سے لے کر میٹرک کر لیا۔
میٹرک کے بعد اس کی زندگی میں مشکلات آنا شروع ہوئی
ایک طرف اس کی والد محترم نے اس کو سکول جانے سے منع کیا یہ کہہ کرکے آپ نے آگے پڑھ کر کیا کرنا ہے اور دوسری طرف اس کے والد صاحب کے خاندان والے بھی اکثر یہ بات کہتے تھے کہ اب یہ بڑی ہوئی ہے کوئی ضرورت نہیں سکول جانے کی۔
کیونکہ تعلیم کی اہمیت ان کے سامنے کچھ بھی نہیں تھے چونکہ ان کے خاندان تین پشت سے تعلیم سے محروم چلے جو آ رہے تھے۔
آخر کار اس بچاری باہمت بہادر لڑکی نے حالت سے سخت مقابلہ کرکے اپنا تعلیم کو جاری رکھی اور اپنے تعلیمی اخراجات خود اپنی سر لی۔
اور بڑی مشکل سے اپنے قریبی گورنمنٹ گرلز کالج میں انٹر میں داخلہ لی۔
اب وہ صبح کالج جاکر اپنی تعلیم کو جاری رکھتی تھی اور شام کے وقت تعلیمی اخراجات پورا کرنے کے لئے اپنے محلہ داروں کے کپڑے سلائی کرتی تھی اور ساتھ میں کشیدہ کاری کا کام سیکھ کر کشیدکاری بھی کرتے تھے اسی طرح انہوں نے اپنے ایف ایس سی لے کر بی ایس سی تک تعلیم مکمل کرلیا حالات اور سختیاں حد سے بڑھنے لگی مگر اس باہمت لڑکی نے ان کا ڈٹ کر مقابلہ کی اور ہمت نہ ہاری اور ثابت کر لیا کہ عورت ذات بھی باہمت ہوتی ہیں اور اپنے قدموں پر کھڑے ہوکر کچھ بھی کر سکتی ہیں۔
بی ایس سی کے بعد آگے تعلیم حاصل کرنی تھی تو بلوچستان یورنیورسٹی میں داخلہ لیکر اپنے ساتھ ایک مظبوط عہد کر لیا کہ بلوچستان یونیورسٹی سے ماسٹر ہی کرنی ہے چاہے کتنی ہی سخت حالات کیوں نہ ہو۔
آخر کار اس نے جیوگرافک میں یونیورسٹی سے ایم ایس سی مکمل کر لیا اور پھر یونیورسٹی میں تعلیم کو مزید جاری رکھنے کے لئے اخراجات حد سے بڑھ گئے تو ایک پرائیویٹ جاب کرنے لگی تاکہ وہ اپنی تعلیمی اخراجات کو پورا کرسکے۔
وقت کا یہ پہیہ چلتا گیا وہ دن بھی آئی کہ جس دن بلوچستان یونیورسٹی میں اس بہادر اور باہمت لڑکی نے حالات کی جنگ جیت کر ایم فل جیوگرافک یہی جیوگرافک ماسڑز کی ڈگری حاصل کرنے کی غرض سے سال 2018 میں داخلہ لے کر اپنی منزل کی آخری سیڑھی پار کر مزید 4 سال کے انتھک محنت کے بعد ایم فل یعنی جیوگرافک کی ماسٹرز کی ڈگری حاصل کرکے اپنی تعلیم کا سفر کو اختتام پزیر کرکے بلوچستان یونیورسٹی کے پروفیسرز میں اپنا نام روشن کردیا
۔تعلیم انسان ایسے ہوتے ہیں کہ خود ایک لڑکی ہوکر ایسا حالات میں تعلیم حاصل کررہی ہے جبکہ خاندان کے لوگ سخت مخالف اور ناراضیگی کا اظہار کر رہے ہیں لیکن ایک دن یہی خاندان والے ایسے عظیم لوگوں پر فخر محسوس کریں گے کہ ہماری بیٹی نے پورے خاندان کی 3 پشت سے چلے تعلیم جیسی نعمت سے محرومی کو ہمیشہ کے لئے ختم کر دی پھر وقت نے وہ وقت بھی ان کے خاندان اور دنیا والوں کو دیکھا دیا کہ محنت کبھی رائیگان نہیں جاتی ہے ۔ آج اس کی خاندان اپنے اس بااہمت بیٹی پر فخر محسوس کرتے ہیں جس نے تعلیم جیسی نمعت کا قدر کرنا سیکھا دیا اور اپنے اس جنگ میں سرخرو ہوگی اس جیسے کہانی ہمارے بلوچستان میں کئی ہزار ہیں لیکن اس لڑکی کی ہمت اور حالات اور خاندانی سختیوں کو میں نے خود اپنے انکھوں سے دیکھا لیا کہ اس معاشرے میں عورت کی بھی اہمیت اہم ہے اور بہادری بااہمتی اور انتھک محنت مردوں سے کم نہیں بس آخر میں اللہ پاک سے دعا ہیں پروفیسر صاحبہ کو اللہ پاک اپنے فضل کرم سے مزید کامیاب کامرانی اور ترقیاں عطا فرمائیں۔آمین..