بلوچستان میں صحافت میں خواتین کی تعداد کم کیوں۔۔۔۔
رپورٹ : افنان شاہ
رقبے کے لحاظ سے بلوچستان پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے بلوچستان میں خواتین کی صحافت میں نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے بلوچستان کے صوبائی دارلحکومت کویٹہ کے علاؤہ صوبے بھر میں کہیں پر بھی خواتین صحافت سے منسلک نہیں صوبائی دارلحکومت کوئٹہ میں بھی خواتین صحافی آبادی اور مرد صحافی حضرات کے مقابلے میں آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں کوئٹہ میں اس وقت صرف 6 خواتین صحافتی میدان میں سخت مشکلات کے ساتھ فرائض انجام دے رہی ہے بلوچستان کے قبائلی نظام میں خواتین کو کسی بھی ادارے میں کام کرنے قبائلی روایات کے خلاف قرار دےکر اجازت نہیں دی جاتی لیکن اب دیگر شعبہ جات میں خواتین کی نمائندگی مرد حضرات کے برابر تو نہیں لیکن کافی بہتری دکھائی دیتی ہے بلوچستان میں جہاں خواتین کے مسائل حل کرنے یا سننے کیلئے خواتین کو زیادہ ترجیح دی جاتی ہے اس کیے تمام شعبہ جات میں ملازمت کے طور پر بھی خواتین کیلئے الگ کوٹہ اور خاص ترجیح دی جاتی ہےمگر صحافت جو ریاست کا چوتھا ستون سمجھا جاتاہے لیکن بلوچستان میں صحافت میں خواتین کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے جس سے خواتین کو درپیش مسائل حل طلب ترجیحات میں شامل نہیں
کوئٹہ میں 92 نیوز چینل سے وابستہ خاتون رپورٹر اقصیٰ میر کا ماننا ہے کہ بلوچستان ایک قبائلی صوبہ ہے یہاں خواتین کا گھرسے نکلنا مایوب سمجھا جاتا ہے اور صحافت کا کام ہی لوگوں کے ساتھ رابطہ اور ان کے درمیاں ہونا ہے اس وجہ سے خواتین صحافت میں نہیں آنا چاتی ہیں اور صحافتی اداروں میں ملازمت پروفیشنل طریقہ کار سے نہیں ملتی یہاں صرف سی وی ذاتی تعلقات پر جمع کی جاتی ہیں اور ملازمت کیلئے مخصوص انٹرویو تک نہیں ہوتے اس لیے بھی خواتین کو جاب ملنا مشکل ہے جبکہ صحافت میں خواتین کیلئے کوئی بھی سہولت نہیں ہوتی ہے جبکہ خواتین کو اداروں میں مرد حضرات سے تنخواہ بھی کم ملتی ہے جس سے مایوسی ہوتی ہے اور خواتین صحافت میں نہیں آنا چاہتیں خواتین رپورٹرز کیلئے آفسز میں ماحول صحیح نہیں ہوتا اور جاب کیلئے خواتین کا خصوصی ماحول نہ ہونے کی وجہ سے بھی جاب آفر نہیں ہوتی ہے آفسز میں خواتین کیلئے الگ روم الگ واش روم نہیں ہوتا سارا دن کام کرنے کے بعد ریلیکس کیلئے الگ جگہ تک نہیں ہوتی ان وجوہات کی وجہ سے مواقع بہت کم ہوتے ہیں اور اس وقت 24 سے 25 چینل چل رہے ہیں لیکن خواتین رپورٹرز کی تعداد 5 سے 6 ہے اگر بلوچستان میں خواتین کی سہولیات کیلئے بیوروز کام کریں تو خواتین ضرور صحافت میں آنا چاہیں گی
بلوچستان یونین آف جرنلسٹس کے جنرل سیکرٹری و سینئر صحافی منظور بلوچ کے مطابق بلوچستان میں کسی بھی شعبہ میں خواتین کی تعداد کم ہے میڈیا میں تو انتہائی کم ہے بلوچستان بلخصوص کوئٹہ میں گنتی کے چند ایک خواتین صحافی ہیں اور صحافت کے ٹیکنیکل شعبہ میں تو خواتین کا نام نشان ہی نہیں ہے جس کی مختلف وجوہات ہیں ایک تو سوشل سیٹ اپ میں خواتین کو باہر ہی نہیں نکلنے دیا جاتاہے اور میڈیا کے حوالے سے ناپسند کیا جاتاہے پہلے تو والدین خواتین کو صحافت کیلئے پسند نہیں کیا جاتاہے اگر خواتین صحافت کی ڈگری حاصل بھی کرلیتی ہیں تو بھی صحافت میں نہیں آتیں جبکہ خواتین کی کونسلنگ بھی نہیں ہوتی ہمارے بچے بچوں کی ڈگری حاصل کرنے سے پہلے کونسلنگ ہی نہیں ہوتی ہے صرف شوق یا دوست کے ساتھ داخلہ لینے کی بنیاد پر بھی ڈگری حاصل کرنے والی خواتین میڈیا کی طرف نہیں آتیں ہماری جامعات میں صحافت پڑھائی تو جاتی ہے مگر سکھائی نہیں جاتا جبکہ مارکیٹ کی ڈیمانڈ تربیت ہوتی ہے تربیت یافتہ لوگ ہوتے ہیں اس لیے خواتین اپنی جگہ نہیں بناپاتی اور وہ اپلائی بھی کرتی ہیں تو ان کو آئر نہیں اگر آئر بھی کرتی ہے تو وہ پرفام نہیں کرپارہی ہیں چند ایک عاد صحافی ایک آئر ہوبھی جاتی ہے تو سب سے بڑی رکاوٹ ان کی منگنی یا شادی ہے اکثر ہم نے دیکھا ہے کہ خواتین آئر بھی ہوئی ہیں تو منگنی اور شادی کے بعد فیلڈ کو چھوڑ دیا ہے انہیں وجوہات کی وجہ سے خواتین کی صحافت میں تعداد کم ہے ان کے ساتھ ساتھ ایک اور بھی حقیقت یہ ہے کہ اب صحافت میں ڈاؤن سازی کا بھی عمل شروع ہوگیا ہے میڈیا ایک بحران ٹیکنالوجی کی وجہ سے کام آسان ہونے دس بندوں کا کام ایک بندہ کرتاہے جس سے جاب اپروچنٹیز انتہائی کم ہوگئی ہیں اگر پہلے کہیں چانس بند ہوجاتاہے تو اب کمپٹیشن ہونے سے بھی نئے آنے والوں کو مشکلات ہوتی ہے اب تو پرانے لوگوں کو نکالا جارہاہے تو نئے کہاں سے بھرتی ہونگے اب اخبارات بہت حد تک کم اور ختم ہورہے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ الیکٹرونک میڈیا میں بھی تنخواہوں کا مسئلہ شروع ہوگیا ہے تین میڈیا بیورو دفاتر بند ہوگئے ہیں پورا اسٹاف کو فارغ کردیا گیا ان وجوہات کی وجہ سے بھی خواتین کی صحافت میں تعداد کم ہے اور ہم اب بلوچستان یونین آف جرنلسٹس کے پلیٹ فارم سے کوشش کررہے ہیں کہ ایک سروس اسٹرکچر ڈولپیٹ جس کے تحت بھرتی کا عمل ہو ترقی کا عمل ہو اور تنخواہیں بھی ڈیفائن کرو اور اس کے ساتھ ساتھ مختلف اداروں کے ساتھ بات کرکے تربیت کا ایک عمل شروع ہو جس میں میڈیا میں کام کرنے والے صحافیوں کے ساتھ ساتھ اسٹوڈنٹس کی بھی تربیت کی جائے تاکہ ان کو عملی کام میں آسانی ہو اور جب کہیں پر بھی کیس قسم کی مواقع ہوں تو اس کو حاصل کرسکیں