خاندان والوں کو یقین نہیں تھا کہ میں اپنا روایتی ہنر کاروبار میں بدل سکتی ہوں۔
بلوچ خواتین کی معاشی ترقی کیلئے مثال قائم کرنے والی دیدار مینگل کی کہانی
تحریر مریم
بلوچستان رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے قدرت نے بلوچستان کی سرزمین کو قدرتی ذخائر سے تو مالامال رکھا ہی ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ صوبہ اپنے مختلف راویتوں اور ثقافتوں کی وجہ سے بھی مشہور ہے
لیکن گزشتہ کئی برسوں میں پاکستان میں جو ایک لہر دہشتگردی اور بدامنی کی گزری اس نے پاکستان کے باقی صوبوں کی طرح بلوچستان کو بھی اپنی شدید لپیٹ میں لیا
جس کی وجہ سے بلوچستان کے باسیوں کی ذندگیاں کافی حد تک متاثر ہوئی چاہیے وہ کاروباری معاملات ہوں تعلیم و صحت کے معاملات ہوں یا پھر بلدیاتی نظام ہو بدامنی کی اس لہر نے نہ صرف کوئٹہ بلکہ پورے بلوچستان کو اپنی لپیٹ میں گھیرے رکھا لیکن بلوچستان کی سرزمین پر کچھ ایسی عظیم شخصیات بھی موجود ہیں جنہوں نے ان تمام مشکلات کے باوجود بھی بلوچستان کی ترقی اور امن کیلئے اہم کردار ادا کیا اور کرتے آئیے ہیں
ان میں سے ایک خاتون دیدار مینگل بھی ہیں
دیدار مینگل کا تعلق بلوچ گھرانے سے ہے اور وہ دوچ پرائیویٹ لمیٹڈ کی ای-سی ہیں اور ہینڈی کرافٹ ایسوسی ایشن میں بطور ایک اہم کارکن بھی کام کررہی ہیں
دیدار مینگل کا کہنا تھا کہ وہ اپنے اسکول کے دنوں سے ہی بطور سماجی کارکن بلوچستان کے لوگوں بالخصوص خواتین کی فلاح و بہبود کیلئے کام کرتی آئی ہیں چاہیے وہ خواتین کے تعلیمی معاملات ہوں یا پھر کسی بھی قسم کی مالی امداد کرنا ہو انہوں نے ہمیشہ خواتین کو سپورٹ کیا ہے
انہوں نے بتایا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انہیں یہ محسوس ہونے لگا تھا کہ لوگوں کو اس طرح کی زندگی گزربسر کرنے کی عادت سی پڑ گئی ہے اور پڑ جائے گی
پھر انہوں نے سوچا کہ کیوں نہ لوگوں کے لیے کچھ ایسا کیا جائے کے انہیں کوئی ایسا ذریعہ معاش فراہم کیا جائے کے وہ خود کمائیں اور خود کھائیں اور ان میں محنت کا جذبہ پیدا ہو اور وہ خود کو اس قابل سمجھیں کے ہم بھی کچھ کرسکتے ہیں اور ہم بھی اس معاشرے کا حصّہ ہیں اور ہم ذندگی کی بنیادی ضروریات اور خواہشات کو خود اپنی محنت کر کے حاصل کرسکتے ہیں
دیدار نے مزید بتایا کہ بلوچستان کے ہر گھر میں ہر بچی ہر عورت کے پاس ہینڈ ایمبرائیڈری یعنی دستکاری کا ہنر موجود ہے ہم نے سوچا کیوں نہ اسی کام کو ان کیلئے روزگار کا ایک ذریعہ بنایا جائے اور ان کو ایک اچھا پلیٹ فارم مہیا کیا جائے اس طرح میں نے اپنی ٹیم کے ہمراہ 2015 میں دوچ پرائیویٹ لمیٹڈ آرگنائزیشن کی بنیاد رکھی۔۔۔
2015 سے کوئٹہ سمیت بلوچستان کے مختلف علاقوں میں چودہ سے پندرہ سنٹرز قائم ہیں جن میں مستونگ، قلات، خضدار، وڈہ، چیمن، پشین اور قلعہ سیف اللہ جیسے علاقے شامل ہیں ان سنٹروں میں خواتین نہ صرف کام کرتی ہیں بلکہ اٹھارہ سے چالیس سال تک کی عمر کی خواتین کو کاروبار کے متعلق تربیتی کورس بھی سکھایا جاتا ہے اور اب تک چھ ہزار خواتین یہ ٹیرینگ حاصل کر چکی ہیں اور تین سو کے قریب خواتین اس وقت بھی ان اداروں میں کام کر رہی ہیں
دیدار مینگل کا مزید کہنا تھا کہ جب انہوں نے یہ کاروبار شروع کرنے کا سوچا تو میرے گھر والوں کو یقین نہیں تھا کہ میں یہ کام کر سکوں گئی لیکن بہت دشواری اور مشکلات کے باوجود میں نے محنت جاری رکھی اور آج میں اس مقام پر ہوں
انہوں نے کہا کہ کس بھی کام کو شروع کرنے میں ہر انسان کو سماجی دشواریوں اور مشکلات کا سامنا کرنا ہی پڑتا ہے جو میں نے بھی کی اور کہیں نہ کہیں آج بھی کر رہی ہوں
کیونکہ بلوچستان میں کوئی ایسا پلیٹ فارم حکومت کی جانب سے عوام کو مہیا نہیں کیا گیا ہے جہاں پر چھوٹے پیمانے کے کاروبار کو فروغ مل سکے خاص طور پر بلوچستان کی خواتین کے لیے تو کوئی ایسا ادارہ موجود ہی نہیں ہے
ہم بلوچستان میں رہتے ہیں اور یہ ایک قبائلی معاشرہ ہے یہاں عورتوں کیلئے گھر سے باہر نکل کر کام کرنا بہت مشکل ہے اسی طرح جب میں کام کے سلسلے میں خواتین کے پاس جاتی تھی ان سے ملتی اور ان کو کاروبار کے بارے میں بتاتی تو ان کے گھر والوں کو لگتا تھا کہ یہ اپنے لیے کام کروا رہی ہے یا پھر ان کو لگتا تھا کہ ہم کوئی ودکان کھول کر ان کی خواتین کو دے دیئے گئے لیکن ہم نے بہت جدوجہد کے بعد ان کو سمجھایا اور ان کی ذہنی نشوونما کی ان کو اس کام کے متعلق آگاہی فراہم کی اور اب یہی لوگ اپنے گھروں کی خواتین کو ادارے لے کر آتے ہیں اور ان کے کام کو بھی سہراتے ہیں اور اب ان کو اندازہ ہو گیا ہے کے اس طرح گھر بیٹھ کر آرام سے عزت پردے میں بھی اچھے خاصے پیسے کمائے جاسکتے ہیں۔۔۔
دیدار مینگل کا کہنا تھا کہ قبائلی مردوں کا اس طرح اپنی خواتین کو سپورٹ کرنا آنے والے روشن مستقبل کی ایک اچھی نشانی ہے اور ہینڈی کرافٹ کے ذریعے اپنی بلوچ ثقافت کو بھی دنیا بھر میں زندہ رکھنے کا ایک بہترین طریقہ ہے
دورجدید میں آج بھی ہینڈی کرافٹ سے بنے ملبوسات اور دیگر اشیاء استعمال کو نہ صرف پاکستان میں بلکہ دنیا بھر میں خوب پذیرائی ملی رہی ہے
اس بارے میں یاسمین مغل جو کہ کوئٹہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والی ایک سماجی اور سیاسی کارکن ہیں جنہوں نے Gender Development Studies میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی ہے اور گزشتہ دو دہائیوں سالوں سے بطور ایک جینڈر ایکسپرٹ عورت فاونڈیشن سمیت کئی اداروں میں منسلک ہیں
یاسمین مغل نے بتایا کہ عورت فاونڈیشن ایک ایسا ادارہ ہے جو نہ صرف بلوچستان میں بلکہ پورے پاکستان میں میں گزشتہ چھتیس سالوں سے خواتینوں کی ترقی کے لیے کام کر رہا ہے جو خواتینوں کو ان کے تعلیمی، معاشی یا سماجی حقوق و فرائض کے متعلق آگاہی فراہم کرتا ہے
یاسمین مغل کا کہنا تھا کہ ہمارے معاشرے میں دیدار مینگل ہوں یا ان جیسی کئی اور کام کرنے والی خواتین ہم اپنے ادارے کے ذریعے ان کو سماجی ترقی، معاشی ترقی اور سیاسی ترقی کے متعلق آگاہی مہیا کرتے ہیں انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے معاشرے میں چند ایسے قوانین ہونے چاہیے جو کام کرنے والی خواتین کو ماحولیاتی تحفظ فراہم کرے جس سے وہ معاشرے میں آزادانہ طور پر کام کر سکیں اور حکومت کی جانب سے ان کی مالی امداد ہونی چاہیے اور ان کو ایک ایسا پلیٹ فارم مہیا کیا جانا چاہیے جہاں ان کا شمار EOBI جیسے ادارے میں خود بخود ہونا چاہیے اور مقامی سطح پر ہر یونین کونسل میں ایسے پوائنٹس ہونے چاہیے جہاں یہ خواتین اپنی تیار کردہ موضوعات برائے راست بیچ سکیں تاکہ کوئی مڈل مین ان کا فائدہ نہ اٹھا سکے
یاسمین مغل نے اپنی اظہار رائے کا خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے بلوچستان میں یہاں کوئی انڈسٹریز نہیں ہیں روزگار فراہم کرنے والے لوگ نہیں ہیں جس طرح سندھ پنجاب میں چھوٹے پیمانے پر فورمز پائی جاتی ہیں وہ موجود نہیں ہیں جبکہ ہمارے یہاں کی خواتین ان پڑھ ہونے باوجود بھی باشعور اور باصلاحت ہیں
سوئی دھاگے کے کام میں یہ جو ماہر خواتین ہیں اگر ان کو کسی اچھے ادارے کے ساتھ منسلک کر دیا جائے تو یقینا آنے والے مستقبل میں بلوچستان کی ترقی اور خوشحالی کے لیے یہ اپنا اہم کردار ادا کرسکتی ہیں