رپورٹ۔مریم تنویر
پچھلے پندرہ برس میں ہزارہ اور شیعہ کمیونٹی پر صرف بلوچستان کے صوبے میں ہی 1400 سے زیادہ حملے کیے گئے ہیں 2003 سے لیکر 2013 تک کئی ایسے بڑے حملے ہوئے ہیں جن میں زائرین کی بس کو ٹارگٹ کرنا ہو یا عاشورہ کے جلوس پر حملے ہو یا پھر نماز جمعہ کے وقت نمازیوں کو نشانہ بنانا ہو ایسے کئی حملے ہمیں ماضی میں دیکھنے کو ملتے ہیں جس میں بڑی تعداد میں جانی نقصان ہوا ہے
یہ تو چند ایسے واقعات تھے جو بھلائے نہیں جاسکتے اس طرح ہزاروں جھوٹے ایسے واقعات ہیں جن میں ہزارہ کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے افراد کو شکل دیکھ کر ہی مار دیا گیا..
اسی طرح ایک دل خراش واقعہ 3 جنوری 2021 کو کوئٹہ بلوچستان مچھ کے میں پیش آیا اس واقعہ میں تقریبا 11 کان کنوں کو ہاتھ پیر باندھ کر قتل کر دیا گیا اس واقعے میں شامل ایک گھرانہ آمنہ بی بی کا بھی تھا جس میں ان کے خاندان کے 5 افراد شامل تھے جن میں آمنہ بی بی کا 18 سالہ ایک بیٹا ایک بھائی اور 3 کزنز تھے آمنہ بی بی کا کہنا تھا کہ ان کے والد اور شوہر سالوں سے لیس پر کوئلہ کان میں کام کررہے تھے اور اب بیمار ہونے اور بوڑھے ہونے کے باعث ان کے بھائی اور کزنز وہاں کام کے لئے جاتے تھے لیکن اس بار ملک میں کورونا وائرس پینڈیمک کی وجہ سے گھریلو معاشی حالات خراب تھے جس کی وجہ سے ان کا سکینڈائیر میں پڑھنے والے 18 سالہ بیٹا احمد شاہ بھی محنت مزدوری کرنے اپنے ماموں کے ہمراہ چلاگیا جن کو 3 جنوری کی رات دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا آمنہ بی بی کا مزید کہنا تھا کہ واقعے کو 2 سال مکمل ہونے کے بعد بھی حکومتی ادارے تحال ان کو انصاف دلانے سے قاصر ہیں اور ا اس وقت کی موجودہ حکومت میں اعمران خان نے کہا تھا کہ ان متاثرین خاندانوں کی حکومتی سطح پر امدا کی جائے گی جن میں متاثرہ خاندان کے بچوں کو اسکالرشپ پر تعلیم دی جائے گی اور جلد از جلد اس واقعے میں ملوث افراد کو پکڑ کر کیفرکردار تک پہنچایا جائے گا لیکن اب تک ایسا کچھ مکمن نہ ہو سکا نہ تو بچوں کو اسکالرشپ پر مفت تعلیم دی جارہی ہے اور نہ ہی انصاف دیا گیا ہے ہاں البتہ چند پیسوں کی مالی امداد ضرور کی گئی ہے آمنہ بی بی نے بتایا کہ اس واقعے نے ان کے خاندان کو مالی طور پر تو متاثر کیا لیکن ساتھ ہی ساتھ ان کے باقی بچوں اور خواتین کی ذہنی صحت اور زندگیوں کو بھی شدید نقصان پہنچایا ہے اور وہ حکومت سے انصاف دلانے اور ان کی مدد کرنے کے لئے اب بھی منتظر ہیں..
صدر بلوچستان شعیہ کانفرنس انجینئر محمد جواد رفیع کا کہنا تھا کہ گزشتہ دو دہائیوں سے جاری دہشت گردی میں کوئٹہ میں تقریبا 2 ہزار لوگ ہزارہ برادری کے شہید ہوئے ہیں اور 25 سے20 ہزار گھرانے تباہ ہوئے ہیں جس کے بعد ہزارہ کمیونٹی کے لوگ مجبور ہو کر کوئٹہ سے ہجرت کرکے ملک کے مختلف شہروں میں جابسے ہیں بلکے کچھ خاندان تو پاکستان ہی چھوڑ کر چلے گئے ہیں لیکن پھر بھی شہر کوئٹہ میں ہزارہ برادری زیادہ تعداد میں موجود ہے لیکن دہشت گردی کے باعث ان کے لیے روزگار کے مواقع انتہائی کم ہیں یہی وجہ ہے تھی کہ غربت اور اور تنگ دستی کی وجہ سے کچھ خاندانوں نے مچھ کی کول مائنز سیکڑ میں جا کر کام کرنے کا فیصلہ کیا لیکن انہیں وہاں بھی بڑی بےدردی سے ذبح کر کے قتل کیا گیا اور لوگوں میں دہشت پھیلائی گئی کے لوگ وہاں بھی نہ جاسکے انہوں نے مزید بتایا کہ ان واقعات سے پہلے شہر میں ہزارہ کمیونٹی کا کاروبار 40 سے 35 فیصد تھا لیکن ان واقعات کے وجہ سے اب 3 سے 2 فیصد رہے گیا ہے اس کی وجہ یہی سیکورٹی ایشوز ہیں کہ اگر وہ شہر میں اپنا کاروبار کرنے جاتے ہیں تو انہیں مار دیا جاتا ہے سرکاری اداروں میں بھی ان کے لیے نوکریاں نہیں ہیں اور نہ ہی کوئی پرائیویٹ سیکٹر ہزارہ نوجوانوں کو روزگار کے مواقع فراہم کرتا ہے
کیونکہ ان کا کہنا ہوتا ہے کہ ہزارہ یا شعیہ ہونے کے وجہ سے یہ ان کے لیے بھی لائف تھریڈز کا ریسک ہوتا ہے انہیں ساری وجوہات کی وجہ سے یہاں لوگ نان شبینہ کے لیے محتاج ہیں ان کے پاس نہ اپنا کاروبار ہے نہ ہی کوئی روزگار کے مواقع ہیں بطور صدر شعیہ کانفرنس بلوچستان ہم خود اپنی بنا پر ویلفیئر شہید فاونڈیشن، شہید ویلفیئر آرگنائزیشن، سیداشہداولفیئر اسکاوئٹ یا دیگر تنظیموں کی توسط سے ایسے گھرانوں کی امداد کرتے ہیں لیکن یہ اس کا مستقل حل نہیں ہے بلکہ مستقل حل یہی ہے کہ ملک و شہر میں امن قائم ہو لوگوں کو برابر جینے کا حق ملے روزگار کے مواقع ملے لاءان آڈر بہتر ہو تکہ لوگوں کو کسی بھی قسم کی مشکلات کا سامنا درپیش نہ ہو..
سینئر تجزیہ نگار مجیب احمد کا اس بارے میں کہنا تھا کہ ہزارہ کمیونٹی کے خلاف دہشت گردی کے واقعات میں بڑی حد تک کمی آئی ہے سیکورٹی فورسز نے فرقہ واریت دہشت گردی میں ملوث جتنے بھی گروپ تھے ان کے خلاف بہت بڑے پیمانے پر آپریشن کئے ہیں جس کے بعد ہزارہ برادری کے خلاف دہشت گردی میں نمایاں کمی آئی ہے
لیکن اس کے علاوہ داعش اور ISIS
جو افغانستان اور پاکستان میں ہزارہ شعیہ کمیونٹی کو ٹارگٹ کرتے تھے جنوری 2021 کے واقعے کے بعد کوئی واقعہ ایسا پیش نہیں آیا کہ داعش نے بلوچستان یا پاکستان میں ہزارہ برادری کو ٹارگٹ کیا ہو لہٰذا فرقہ واریت دہشت گردی میں ملوث افراد کو سیکورٹی فورسز نے کافی حد تک مختلف آپریشنز کر کے ختم کیا ہے اور اب حالات ہزارہ کمیونٹی کے لیے بہت سازگار ہیں گزشتہ ایک تین سالوں سے جہاں ایک وقت ایسا بھی تھا کہ ان کی جو دو آبادیاں ہزارہ ٹاؤن اور مری آباد بس وہی تک محدود ہو کر رہے گے تھے 2008 سے لیکر 2015 تک وہاں کے لوگوں کا شہر کی طرف آنا مشکل ہو گیا تھا لیکن اب ایسا نہیں ہے اور ان کی موومنٹ شہر کی طرف واپس شروع ہوگئی ہے 20 فیصد بدامنی کا خطرہ اب بھی موجود ہے لیکن 70 فیصد سیکورٹی کے انتظامات بہتر ہیں…