رپورٹ : ممانڑہ آفریدی
رحمت اللہ اپنے روتے ہوئے بچے کو گود میں اٹھائے انھیں چپ کراورہے، وہ ہنہ اوڑک میں حکومت بلوچستان کے جانب سے قائم غذائی قلت کے شکار بچوں کو مطلوب غذائی خوراک فراہم کرنے کے ایک موبائل کمپ آئے ہوئے ہیں تاکہ وہ اپنے بچے کی چیک اپ اور اور ان کے بچے کو درکار غذائی مواد حاصل کرلے ۔ رحمت اللہ کہتے ہے کہ وہ کوئٹہ کے سیاحتی مقام ہنہ اوڑک کے رہائشی ہے ان کے مطابق جب سیلاب آیا تو وہ کہیں مشکلات کے شکار ہوئے ۔ ان کے گھر سیلاب میں بہہ گئے اس لیے وہ بے گھر ہوئے ۔
رحمت اللہ کہتے ہیں کہ سیلاب نے نہ صرف ان کے گھروں کو متاثر کیا بلکہ سیلاب سے ان کی بچے بھی بہت متاثر ہوئے وہ کہتے ہے کہ ان کے بچے ڈاکٹروں کے مطابق غذائی قلت کے شکار ہیں ۔
حاجی سردار حکومت بلوچستان کے غذائی قلت کے پرواگرام کے موبائل ٹیم میں
کام کرتے ہیں وہ کہتے ہے کہ سیلاب سے متاثرہ بچوں کو مطلوبہ خوراک نہیں ملا اس لیے زیادہ بچے غذائی قلت کے شکار ہیں ، جس کی وجہ سے غذائی قلت کے شکار بچے مختلف بیماریوں کے شکار ہوجاتے ہیں۔
حاجی سردار کے بقول: غذائی قلت کے شکار بچوں کی وزن نہیں بڑھتا ہے ، ہمارے پاس بہت کم وزن والے بچے آتے ہیں وہ ان بچوں کو مطلوبہ غذا فراہم کرتے ہیں ۔
رسول بخش بلوچستان غذائی قلت پروگرام میں ضلعی آفیسر ہے وہ کہتے ہیں کہ بلوچستان کا گرین بیلٹ جعفرآباد ، نصیرآباد ،صبحت پور اور جھل مگسی سیلاب سے زیادہ متاثرہ اضلاع ہیں ، ان اضلاع میں بڑی تعداد میں بچے غذائی قلت کے شکار ہیں ۔
بلوچستان کے غذائی پروگرام کے فراہم کردہ معلومات کے مطابق سیلاب سے پہلے بلوچستان کے ۱۳ اضلاع میں غذائی قلت پروگرام یونیسف کی مدد سے کام کررہا تھا لیکن لیکن سیلاب کے بعد سیلاب سے متاثرہ علاقوں کو بھی مذکورہ پروگرام کا حصہ بنایا اب بلوچستان کے ۲۱ اضلاع میں بلوچستان حکومت کا غذائی قلت کا پروگرام چل رہا ہے ۔
بلوچستان حکومت کے غذائی پروگرام کے اعداد و شمار کے مطابق ۱۵۰۰۰۰ کے قریب سیلاب سے متاثرہ بچوں کی اسکرننگ ہوچکی ہیں ۔اور یہ اعداد و شمار اگست سے اکتوبر ۲۰۲۲ تک کے ہیں ۔
مذکورہ سکرننگ شدہ بچوں میں اعداد و شمار کے مطابق شدید غذائی قلت کے شکار بچوں کی تعداد بیس ہزار تک ہے ۔
اس کے ساتھ ستر ہزار کے قریب حاملہ خواتین کو غذائیت پورے کرنے کی اداویات فراہم کئے تاکہ پیدا ہونے والے بچے غذائیت کے شکار نہ ہو ۔
مذکورہ اعداد و شمار کے مطابق ایک فیصد بچے جوغذائی قلت کے شکار تھے وہ اپنے جان سے ہاتھ دھوبھٹیں ہیں ۔
رسول بخش کہتے ہیں کہ سیلاب سے پہلے بلوچستان کے ۵۴ فیصد بچے غذائی قلت کے شکار تھے ، لیکن سیلاب کے بہت یہ شرح ۷۰فیصد تک پہنچ چکا ہے ۔ اس کی وجہ بتاتے ہوئے رسول بخش کا کہنا تھا کہ ایک تو پہلے سے بلوچستان میں بیروزگاری کا شرح زیادہ سیلاب نے شرح بیروزگاری کی شرح میں مزید اضافہ کردیا۔
اس وجہ سے اکثر غریب ماوں کو خود درکار خوراک نہیں ملتا تو اس کی وجہ سے ان کی بچے بھی غذائی قلت کے شکار ہوجاتے ہیں ۔ ان ماوں کے پاس اتنے وسائل نہیں ہوتے کہ وہ دودھ اور دیگر مطلوبہ خوراک بازار سے لے سکیں ۔
رسول بخش کہتے ہے کہ حکومت بلوچستان کوشش کررہا ہے کہ وہ کم دستیاب وسائل میں ہر غذائی قلت کے شکار بچے تک پہنچ جائیں اس کیلئے حکومت نے متاثرہ علاقوں میں محترک ٹیمیں بنائی ہیں ۔