گوادر کا مقدم
تحریر:عبدالکریم
ناکو چارشمبے کوہ باطل کے دامن میں ساحل کنارے ساحلی ریت میں سیپوں کو یکجہا کرکے کہ بچیوں کی مانند پھر سے اسے بکھیر دیتے ہیں۔ ان کے ہاتھوں کو گوادر کی جھلسا دینے گرمی نے کوئلے کی مانند بنا دیا ہے۔
چار شمبے کی عمر ڈھل چکی ہے۔ انہوں نے ادھی سی زیادہ زندگی سمندر کی لہروں سے لڑکرگزاری ۔ لیکن اب وہ انسانی رویوں کے سامنے بے بس ہوچکے ہیں۔ انسانوں نے ان سے ان کی زندگی یعنی سمندرکو چھین لیا ہے ۔ وہ جھریوں سے بھرے ہاتھوں کو ماتھے پر رکھ کر اپنے چہرے کو دھوپ سے بچانے کا ناکام کوشش کرتے ہیں ۔ ان کی آنکھوں کے سامنے جیٹی پر مچھیروں کی کشتیاں کھڑی ہیں۔ جو کئی دنوں سے سمندر کے نیلگوں پانیوں کی آغوش میں سے جانا چاہتےہیں۔ جس کی انہیں اجازت نہیں مل رہی ہے۔
ان کشتیوں میں ایک کشتی ناکوچارشمبے کی بھی ہے۔ ناکوچارشمبے اپنی کشتی کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔
ان کی آنکھوں کی ساحل سے ماضی کے وہ دن لہروں کی طرح ٹکرا واپس سمندرمیں مدغم ہوجاتے جب وہ اس سمندرکے مالک تھے۔ وہ سمندر کے بےرحم لہروں سے لڑ کر ان کی گود سے ڈھیرساری مچھلیاں شکار کرکے واپس لوٹتے تھے۔
لیکن اب ایسا نہیں ہے ناکو چارشمبے کی کشتی سمیت گوادر کے مچھیروں کی کشتیاں جیٹی پر یکجا کھڑی ہیں۔ لیکن ان کے ناخدا گوادر میں ایک مقام پر یکجا ہوکر احتجاج کررہے ہیں کہ ان کو ان کی زندگی سمندر سے جدا نہ کیا جائے کیونکہ سمندر سے ان کی زندگیاں جڑی ہوئی ہیں ۔ ان کا روزگار سمندر سے منسلک ہے ۔
یاد رہے گوادر کے مقامی افراد بیس سے زائد دن ہوگئے ہیں کہ دھرنے پر بیٹھے ہیں۔ ان کے سترہ مطالبات ہیں جن میں سب سے اہم مطالبہ مچھیروں کا ہے۔ ان کے مطابق گوادر کے ساحلی حدود میں ٹرالر مافیا جو کہ غیرمقامی ہیں۔ وہ گوادر کے مچھیروں کا استحصال کررہے ہیں بلکہ وہ سمندر میں سمندری حیات کو بھی ختم کرنے میں پیش پیش ہیں۔ یہ مافیا بہت طاقتور ہے ۔ بلوچستان کی صوبائی حکومت کے دسترس میں نہیں ہے کہ وہ اس مافیا کو شکار کرنے سے روک سکے۔
مچھیروں کے مطابق ٹرالرمافیا کے پاس ایسے جال ہیں۔ جو نہ صرف مچھلیوں کو بڑی تعداد میں پکڑتے ہیں بلکہ وہ اس میں مچھلیوں کے انڈے بھی ساتھ لے جاتے ہیں ۔ جس سے سمندر میں مچھلیوں کی افزائش نسل کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ جبکہ مقامی ماہی گیروں کے ساتھ ہر سیزن کا اپنا جال ہوتاہے ۔ وہ اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ افزائش نسل متاثر نہ ہو۔
یاد رہے گوادر کے سمندر میں قانون کے تحت بارہ ناٹیکل کی حدود میں شکار کرنے پر پابندی ہے۔ لیکن ٹرالر مافیا اس قانون سے بھی ماورا ہے ۔
اس کے ساتھ یہ مافیا مقامی ماہی گیروں کو مارتے ہیں ان کے ساتھ آتشی اسلحہ ہوتاہے ۔
یاد رہے بلوچستان کے ساحلی علاقوں کے اسی فیصد مقامی افراد کا روزگار براہ راست سمندر سے وابستہ ہے ۔ اب مچھیرے جب سمندر کا رخ کرتے ہیں تو وہ وہاں سے خالی ہاتھ لوٹتے ہیں کیونکہ سمندر میں ٹرالر مافیا نے مچھلیوں کی نسل کشی کافی عرصے سے شروع کررکھی ہے ۔
اس کے ساتھ بیس فیصد مقامی لوگوں کا کاروبار سرحد سے منسلک ہے وہ کاروبار بھی ٹوکن سسٹم کی وجہ سے تباہ حال ہے ۔
گوادر چونکہ سی پیک کا اہم حصہ ہے ملک کے نامور معیشت دانوں کے مطابق اس منصوبے سے نہ صرف گوادر کی بلکہ ملک کی تقدیر بدل جائے گی ۔ کیا واقعی ایسا ہے اس کا جائزہ لیتے ہیں ۔
سی پیک منصوبہ ۴۶ ارب ڈالر کا ہے اس میں سے ۳۰ ارب ڈالر ۲۰۱۷ سے پہلے خرچ ہوچکے ہیں ۔ اور باقی رقم بھی خرچ کے اخری مراحل میں ہے ۔
لیکن گوادر کو کیا ملا ہے اس کے بنیادی مسائل حل ہوئے ہیں ۔ جواب نفی میں ہوگا کیونکہ گوادر میں پانی کا مسئلہ کئی سالوں سے حل طلب ہے۔ لیکن تاحال اس کیلئے کوئی منصوبہ بندی شروع نہیں کی گئی۔ آج بھی گوادر کے باسی پینے کے پانی کیلئے ترستے ہیں ۔
اس کے ساتھ بجلی کا مسئلہ بھی جوں کا توں ہے ۔ مکران کے تینوں اضلاع کو بجلی ایران سے ملتی ہے وہ بھی کبھی ہوتی ہے کبھی نہیں افسوس کن امر یہ ہے سی پیک فریم ورک کے مطابق پاکستان اور چین دونوں طرف سے توانائی کی فراہمی کیلئے ۱۶ بڑے منصوبوں کی ترجیحاتی بنیادوں پر پاکستان کے مختلف علاقوں کے لیے شناخت کی گئی ہے۔ ان میں مکران بلوچستان تو ایک طرف مرکزی بندرگاہ شہر گوادر کے علاقوں کے نام بھی شامل نہیں ہیں۔ جبکہ اس فہرست میں بہاولپور ، پورٹ قاسم ، سائیوال ، جھمپیر ،تھر،مٹیاری ٹو لاہور ٹرانسمیشن لائن ترجیحی طور پر جگہ پاگئے ہیں ۔
بلوچستان کے معروف دانشور شاہ محمد مری نے اس بابت اپنی کتاب بلوچ ساحل اور سمندر میں لکھتے ہیں ۔‘‘ادھر پاکستان چین کے ساتھ مل کر گوادر کو ترقی دے رہا ہے ۔ مگر گوادرکے عوام بے چارے سے کوئی پوچھتا ہی نہیں ہے اور یہی ہے اصل خرابی کی اصل بنیاد۔’’
گوادر کے عوام سے پوچھنا چاہیے ان کے مسائل حل کرنے چاہیے اور یہ پائیدار ترقی کیلئے ناگزیر ہے۔