تحریر نبیلہ ناز
افسوس کا مقام ہے حکمرانوں کیلے جہاں ایک معصوم پھول سے لیکر ایک مزدور تک کوئی محفوظ نہیں ، کیا یہ ہمارا اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے جہاں آئین میں کسی کی جان و مال ، عزت و آبرو کیلے کوئی شق موجود نہیں، کیا اس طرح ہم نے جینا ہو گا ابھی بھی ہم اپنے بچوں کے ساتھ ساتھ اب اپنے باپ بھائیوں کیلئے فکرمند ہوں گے ،
معصومہ ہزارہ کہتی ہیں۔
’
اگر کسی کو کربلا کا منظر دیکھنا ہے تو وہ میرے خاندان کو دیکھ لے۔ ہم چھ بہنوں نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم اپنے بھائی اور
اپنے رشتہ داروں کے جنازے خود اٹھائیں گے۔ یہ کیسی ریاست مدینہ ہے۔
معصومہ ھزارہ۔
اسی کو جیتے جی مرنا کہتے ہیں ،
شیعہ سنی ، بلوچ پٹھان ، پنجابی ہندوستانی ، یہ سب تفریقیں کیوں اب تک ۔
کیا ہمارے حکمرانوں میں کوئی ایسا موجود نہیں جو تھوڑی ہمت مرداں رکھتے ہوئے اس تفریق کو مٹا سکے ،
کیا ہماری مزدور برادری صرف اسی لیے رہ گئی کہ جدید مشینری کے بغیر اپنی جان ہتھیلی پہ رکھ کہ کئی کئی میٹر کانوں کے اندر جائے ،
اور رات کے کسی پہر نامعلوم افراد انہیں رسیوں سے باندھ کہ بے دھڑک شھید کر جائیں ، کیا انکا خوں اتنا سستا ہے ، بلکہ کسی بھی ماں کے لال کا خوں اتنا سستا نہیں ۔۔
کب تک ؟ آخر کب تک ؟
ہم آئے دن اپنے ہزارہ بھائیوں ‘بلوچ بھائیوں’پشتوں بھائیوں کے جنازوں کو کندھا دیتے رہے گے ؟
کیا ایسا کوئی قانون موجود نہیں جو نامعلوم افراد کو بے نقاب کر سکے ،
اور اس پہ موجود ہمارے حکمران جو شاید اپنے سرکار کے نشے میں چور ہیں اور صرف حکم دیے جاتے ہیں کہ جنازوں کی تدفین کر دیں ، کوئی انہیں بتائے کہ یہ جنازے اصل میں کوئی انسانی جان کے نہیں بلکہ یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے منہ پہ ایک سوالیہ نشان ہے ایک لعنت ہے ، کہ اسلامی مملکت میں اپنے ہی لوگ محفوظ نہیں وہ لوگ جو اپنے خاندان کی کفالت کیلئے دن رات کانوں کے اندر کام کرتے رہتے ہیں ، اور پھر کسی نامعلوم گولی کا لقمہ بن جاتے ہیں ۔
کوئی تو آئے اور کبھی نا بھرنے والے زخم پہ وقتی مرہم تو رکھے ۔شدید سردی میں کئی روز سے بیٹھی ہزارہ برادری کیوں نظر نہیں آ رہی کسی کو ۔۔
“جبر کا موسم کب بدلے گا۔۔۔ہم بدلیں گے تب بدلے گا
ساری عمر یہ آس رہی وہ۔۔۔۔اب بدلے گا ۔۔ اب بدلے گا ۔۔۔
محکوموں کو ملے گی شاہی۔۔۔اک دن سب کا’سب بدلے گا۔۔۔
جبر کا موسم کب بدلے گا۔۔۔۔ہم بدلیں گے تب بدلے گا۔۔۔۔
مچھ کارکن انصاف۔۔
کیا اس بار بھی بغیر کسی گارنٹی اور حفاظتی اقدام کے یہ معاملات نبٹا لیے جائیں گے یا بس ایک بار پھر ہزارہ برادری کو اپنے زخم خود بھرنے پڑے گے ۔۔