بے لگام سوشل میڈیا
میروائس مشوانی
اج کل کے دور ہر وہ فرد جس کے پاس سمارٹ فون ہے وہ شخص سوشل میڈیا سے منسلک ہے یعنی فیسبک ،ٹوئٹر ،واٹس ایپ، انسٹا گرام ، یوٹیوب وغیرہ پاکستان میں سب سے زیادہ سوشل میڈیا سے منسلک افراد کق تعلق فیس بک صارفین کا ہے۔
جن کے تعداد ملینز میں ہے۔ دیگر سوشل میڈیا ٹولز کے صارفین کے تعداد بھی لاکھوں میں ہے ۔
اکیسویں صدی میں دنیا کو گلوبل ویلج سوشل میڈ یا ہی کی وجہ سے تصور کیا جا تھا ہے، یعنی دنیا کے تما م افرد سوشل میڈ یا کے بدولت ایک دوسرے کے سا تھ جڑے ہوئے۔ اور ایک دوسرے کے مذہبی ثقافتی ، سیاسی ، معاشرتی ،معاشی زندگی سے منسلک معلومات با آسانی گھر بیٹھے حاصل کر سکتے ہیں۔
معلومات کا تبادلہ بھی با آسانی کیا جا سکتا ہے ایک اندازے کے مطابق پوری دنیا میں انٹر نیٹ صارفین کے تعداد 3.48 بلین ہے جو کے دنیا کی آبادی کا9فیصد بنتے ہیں۔ یہ تعداد روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ آنے والے چند سالوں میں ان صارفین کے تعداد نہ صرف دوگنی بلکہ پوری دنیا کے آدھی آبادی انٹرنیٹ سے منسلک ہو سکے گی جس کی وجہ پوری دنیا میں سوشل میڈیا کا انقلاب مذید شدت اختیار کرے گا۔
دنیا میں بسنے والی ہر فرد تیز ترین انٹر نیٹ کے ذریعہ سوشل میڈ یا کے طرف راغب ہورہے ہیں.
سوشل میڈیا ٹولز میں سے فیس بک کے صار فین دنیا میں سب سے زیا دہ ہیں جن میں سے اکثر صارفین کا تعلق سیاسی اور مذہبی جماعتوں سے ہوتا ہے جو کے اپنے سیا سی اور مذہبی مفادات کے لیے مختلف قسم کے تصاویر ،ویڈیوز ، اپلوڈ کرتے ہیں جو کے ںعض اوقات پراپیگنڈہ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
دنیا میں ہر چیز کے استمعال کے دو رخ ہوتے ہیں یعنی مثبت اور منفی یہ استعما ل کرنے والے پر ہی منہصر ہے کہ وہ اسے کس طرح استعما ل میں لا سکتا ہے۔ اگر مثبت استمعال کرے گا تو مثبت نتائج اخذ ہونگیں گر منفی استمعال کرے گا تو منفی نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اسی طرح سوشل میڈیا کو بھی اگر مثبت استعمال کیا جائے گا تو مثبت نتائج اخذ کئے جا سکتے ہیں۔
سوشل میڈیا کے انقلاب نے انسانی زندگی میں کافی آسانیاں پیدا کی ہیں یعنی آج سے ایک صدی پہلے چند چیزوں کا نام نشان تک دنیا میں نہیں تھا لیکن اب ان کے بغیر انسانی زندگی ادھوری تصور کی جاتی ہے، جس میں سے ایک موبائل فون ہے جس کے زریعہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ ابلاغ کرنے سمیت با آسانی معلومات کے ترسیل سے لیکر معلومات تک رسائی ککگ سفر کو مشکل ترین کام باآسانی انجام دے پاتے ہیں۔
انٹر نیٹ نے انسانی زندگی کے دیگر شعبوں میں بھی آسانی پیدا کیں ماضی میں ایک جب کسی بھی قسم کی معلومات کو ایک جگہ سے دوسری جگہ یا ایک شہر سے دوسرے شہر تک یا تو پھر ایک ملک سے دوسرے ملک تک پہنچاناہوتا، تو ایک پیغام کو دوسری شہر تک پہنچانےمیں کئیں دن بیت جا تے لیکن اب یہ کام سیکنڈوں میں ہو سکتا ہیں ۔
اب تو طالب علموں کے لیے سوشل میڈیا نے علم تک رسائی کو انتہاہی اسان کردیا ہے سوشل میڈیا پر مختلف ڈیجٹل کتب خانے، ایک منٹ میں دنیا کے مارکیٹوں سے نا پید کتابوں تک رسائی ممکن ہیں۔
اخبارات،جراید ،میگزین کم وقت اور کم قیمت پر ہر وقت دستیاب ہوتے ہیں، اور کاروباری دنیا میں بھی سوشل میڈیا نے انقلاب بر پا کر دیا ہے جس سے آن لائن شاپنگ کے ذریعہ با آسانی خریداری ہو سکتی ہے۔ سوشل میڈیا کے نقصانات بھی کافی زیادہ جس طرح سوشل میڈیا نے انسانی زندگی میں آسانیاں پیدا کی ہیں۔ تو اسی طرح مشکلات کا پہاڑ بھی کھڑا کیا ہے کیو نکہ اکثر سوشل میڈیا صارفین کا تعلق ان
لوگوں سے ہوتا ہے جن کا تعلق کسی نہ کسی صورت کسی نظریہ ،ملک ،زبان ،رنگ نسل اور
سیاسی مذہبی جماعتوں سے ہوتا ہے۔ جبکہ یہ دنیا کا دستور رہا ہے کہ دنیا میں بسنے والی ہر فرد اپنی گروہ کی ترویج کے لیے مختلف ذریعہ کا استمال کرتا ہے۔ اور مخالف گروہ کی مخالفت میں ہر حد پار کر لیتا ہے۔
اس وجہ سے سوشل میڈیا کو پوری دنیا میں سب سے زیادہ سیاسی مخالفین پر تنقید مذہبی منافرت کے لیے استمال کیا جاتا ہے۔ جس سے پوری دنیا کو گزشتہ چند سالوں میں جو مسائک درپیش ہوئے ان سے کوئی انکاری نہیں۔
ایک اندزے کے مطابق پاکستان میں 22%نواجون سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہیں، بلکہ آنے والے چند سالوں میں ان کی تعداد دگنی ہو گی۔ پا کستا ن کا شمار دنیا کے چند ایسے مما لک میں ہوتا ہے جہان پہ سب سے زیادہ غیر اخلاقی ویڈیوز اور ممنوعہ ویب سائٹس تک رسائی حاصل کی جا تی ہے۔
اکثر نو جوان سوشل میڈیا میں اسطرح مگن ہوئے ہیں کہ انہوں نے تعلیم سے زیا دہ فیسبک ،ٹوئٹر ،اور سوشل میڈیا سے منسلک دیگر ٹولز کو اہمیت دینے لگے ہیں جس سے نہ صرف معاشرتی زندگی متاثر ہوئی بلکہ تعلیمی نظام بھی زبوں حالی کا شکار ہوا۔
سوشل میڈ یا نے نہ صرف تعلیمی نظام کے لیے مشکلات میں اضافہ کیا بلکہ نوجوانوں کے ذہنی اور جسمانی صحت پر بھی بری طرح اثر انداز ہوا نوجوان نسل میدان میں کیھلے جانے والے کیھلوں سے زیادہ گھر بیٹھے سوشل میڈیا کے ذریعہ کیھلے جانے والے آن لائن گیموں میں اکثر اوقات مصروف عمل رہتے ہیں جس سے انکی نہ صرف جسمانی بلکہ ذہنی صحت بھی متاثر ہوتی ہے۔
سوشل میڈیا بے لگام کیوں ؟جس طرح میں نے سوشل میڈیا کے افادیت اور اہمیت اور نقصانات کے حوالے سے کچھ معلومات اپنے تحریر کا حصہ بنائیں اسی طر ح اب میں اصل موضوع کے طرف کے طرف آتا ہوں۔
پاکستان میں سب سے زیادہ سوشل میڈیا صارفین کے تعداد ان لوگوں کی ہے جن کا تعلق کسی نہ کسی طرح سے کسی سیا ی جما عت یا کسی لسانی اور مذہبی نظریہ سے ہوتا ہے۔جو اپنے مقاصد حاصل کرنے اور اپنے گروہ کج تر ویج کے لیے سوشل میڈیا کا استمال اخلاقیات کو روند کر اپنے مخا لفین پر تنقید کرتے ہوہے دل کے بڑھاس نکالتے ہیں اس سے معاشرے میں ایک نفرت انگیزی اور اشتعال انگیزی کو تقویت ملتی ہے۔ اگر سوشل میڈیا کو لگام نہیں دیا گیا تو یہ بے لگام گھوڑےکی طرح معا شرتی زندگی کو روندتی رہے گی، اور اس سے بھی زیا دہ خطرناک سوشل میڈیا پر موجود غیر اخلاقی مواد جو نہ صرف مذہبی روایات کے منافی ہیں بلکہ نوجوان نسل تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے۔
اکثر ہمارے ذہن میں ایک سوال گردش کرتا ہے کہ اخبارات ، ٹیلی وژن ،ریڈیو اور دیگر زرائع ابلاغ پر تو حکومت اور دیگر ریاستی اداروں کہ تو نظرہوتی ہے لیکن اگر کسی قسم کے غلط معلومات یا کوئی ویڈیو اور تصویرشائع یا نشر کیی جاہے تو اسے بند کیا جاتا ہے لیکن جب بات سوشل میڈیا کی آتی ہیں تو وہاں ایسا کچھ نہیں ہوتا۔
دنیاکے دیگر ممالک میں سوشل میڈیا کے ناسور سے بچنے کے لیے ہرسال نئی پالیسیاں مرتب کی جاتی ہیں۔ بلکہ سوشل میڈیا کے استمال کے حوالے اسکول سے لے کر یونیورسٹی کے طلباء اور طالبات اور زندگی کے تمام شعبہ جات سے منسلک افراد تک کو سوشل میڈیا کے منفی استعمال سے لوگوں کو بچانے کے لئے مہم چلائی جاتی ہے۔
لیکن ہمارے ہاں اس طرح کا کوئی اقدام نہیں اٹھایا جاتا جس کی وجہ سے روز بروز نواجون نسل تعلیم اور کتابوں سے دور ہوتء ہوئے سوشل میڈیا کے قریب ہوتے چلے جا رہے ہیں۔
اگر اسی طرح سوشل میڈیا کو بے لگام چھوڑا گیا تو آنے والے وقتوں میں ہم دنیا سے پیچھے رہ جائیں گے۔ حکومت ،اساتذہ کرام دیگر مکتبہ فکر کے لوگ مل کر سوشل میڈیا کو لگام دے کر نوجوان نسل کو بچا سکتے ہیں۔