خوشنما مستقبل نے دلہن کے حقیقی خواب چکنا چور کردیے
رپورٹ: عبدالکریم
بہار کی آمد تھی سردیاں اختتام کو پہنچ رہی تھی ، پنکھڑیوں کی کونپلیں خیبر کی باغیچوں میں کہیں کہیں پھوٹ رہی تھیں ، دور شلمان کے پہاڑوں کے دامن میں ایک معصوم سی اٹھارہ سالہ گل مینہ(فرضی نام) اپنی زندگی کے بہار کو خوش آمدید کہنے کیلئے اپنی بچپن کی سھلیوں کے ساتھ تیار ہونے میں مصروف تھی ۔ گھر میں خوشیوں کا سما تھا ،اس کی منگنی اسی کی مرضی سے گاؤں کے خووبرو نوجوان سے ہورہی تھی ۔ گل مینہ اس وقت خود کو دنیا کا خوش قسمت انسان تصور کررہی تھی ۔
گل مینہ کی منگنی صدام سے ہوئی جو ان سےعمرمیں چارسال بڑا تھا ،وہ زیادہ پڑھا لکھا نہیں تھا۔ مالی طور پر بھی کمزور تھا۔ دو بھائیوں اور ایک بہن کا بڑا بھائی تھا۔ والد ضعیف ہونے کی وجہ سے گھرکی ساری ذمہ داری اس کی ناتواں کندھوں پر آئی تھی ۔
گل مینہ کے مطابق: منگنی کو دو ماہ ہی گزرے تھے کہ صدام نے بیرون ملک جانے کا ارادہ کیا۔ اس مقصد کے لیے وہ کسی طرح انسانی اسمگلروں کے ہاتھ چڑھ گیا۔
گل مینہ بتاتی ہیں کہ صدام چاہتا تھا کہ وہ بہت زیادہ پیسے کمائے اور ایک خوبصورت زندگی کا آغاز کرے ، وہ شادی کے اخراجات کیلئے بھی پریشان تھا۔
گل مینہ کے بقول: ان کے منگیتر گھر والوں کے ساتھ ایران کے ساتھ منسلک ترکی کے سرحد تک رابطہ تھا انہوں نے کسی مشکل کا ذکر نہیں کیا وہ پرامید تھا کہ وہ منزل مقصود تک پہنچ جائے گا۔ لیکن اس کا رابطہ گھر والوں سےپھر نہیں ہوا ۔
گل مینہ بتاتی ہیں کہ صدام کے جانے کے بعد ان کی زندگی یکسر تبدیل ہوگئی، وہ بھی صدام کی طرح کئی لاپتہ سی ہوگئی بظاہر تو میں زندہ ہوں، لیکن میری روح صدام کی طرح کئی تاریک راہوں میں بھٹک رہی ہے۔ میں ہر دستک پردروازے کے طرف اس امید پر دوڑتی چلی جاتی ہوں کہ شاید صدام دروازے پر آ کر کھڑا ہوگا۔
یاد رہے گل مینہ کی شادی صدام کی غیر موجودگی میں صدام اور ان کے ماں باپ کی مرضی سے ہوئی۔
“واضح رہے کہ پشتون قبائل میں اکثر جو لوگ باہرممالک روزگار کے سلسلے میں جاتےہیں تو ان کی غیر موجودگی میں لڑکی سے ان کانکاح کیا جاتاہے، پھر جب وہ واپس آجاتاہے تو ازدواجی زندگی شروع کردیتا ہے”
گل مینہ شادی کی حوالے سے کہتی ہیں: دلہن بننا ہر لڑکی کی خواہش ہوتی ہے، میری بھی شادی ہوئی لیکن صدام کے نام اور اس کے روح سے ، وہ مزید کہتی ہے قبائل میں جب کوئی لڑکی کسی کے نام پر ہوجاتی ہے پھر چاہیے کچھ بھی ہو وہ ان کے نام کے ساتھ بندھی رہتی ہے اور یہ ہماری روایات ہے اور میں انہی روایات کی پاسداری کررہی ہوں۔
“یورپ جانے کےلیے غیرقانونی سفر کرنے والوں کو انسانی سمگلر کوئٹہ کے راستے تفتان، ایران اور پھر ترکی تک پہنچاتے ہیں، جس کے بعد سمندری سفر کے دوران اکثر کے جہاز ڈوب جاتے ہیں اور بعضوں کی لاشوں کا بھی پتا نہیں چلتا ”
صدام کے ساتھ کیا ہوا۔۔؟ وہ کدھر ہے۔۔؟ کیا کسی جیل میں ہے یا کئی اور اس بابت ان کے گھر والوں کو کچھ نہیں معلوم صدام کی ماں صدام کی راہ تکتی تکتی دنیا سے کوچ کرگئی۔ ان کی آنکھوں میں آنسو خوش ہوگے تھے۔ صدام کے چھوٹے بھائی عرفان بتاتے ہیں کہ ہماری ماں زندگی کی آخری آیام میں کسی سے بات نہیں کرتی تھی وہ خود کو قصوارٹھہراتی تھی اور کہتی رہتی تھی کہ انہوں نے صدام کو اجازت کیوں دی کہ وہ غیرقانونی طور پر بیرون ملک چلا جائے ۔
عرفان کہتے ہیں کہ ہم ہر در پر گئے لیکن ہمیں صدام کا کوئی سراغ نہیں ملا ان کے ساتھ کون گیا تھا۔ انہوں نے ہمیں نہیں بتایا تھا بس کہتا تھا کہ اچھے لوگوں کے ساتھ ہوں۔
عرفان نے مزید بتایا کہ صدام کی شادی روایات کی بندوشوں کی وجہ سے تو کروا دی گئی تھی، لیکن شادی کے بعد ہم نے گھر میں روز صدام کو مرتے ہوئے دیکھا ہے۔
عرفان بتاتے ہیں کہ گل مینہ نے ہمارے والدین اور ہماری بہت خدمت کی اور کبھی ہم پر ظاہر ہونے نہیں دیا کہ وہ دکھی ہے لیکن میں نے ان کی آنکھوں میں امیدوں کو مرتے دیکھا ہے۔ مجھے ہمیشہ لگتا ہے کہ صدام نے ہمارے لیے زندگی جھوکم ڈالی مگر ہم سب گل مینہ کے خوابوں کے قاتل ہیں ہم کبھی بھی یہ کا کفارہ ادا نہیں کرسکیں گے۔ وہ اب بھی اس امید پر جی رہی ہے کہ صدام آئے گا اور وہ اس کے ساتھ خوش و خرم زندگی بسر کرے گی، اللہ کرے ایسا ہو ،مگر اب ہماری امیدیں دم توڑ رہی ہیں صدام کو گئے ہوئے سات سال ہوگئے ان کا اس دوران کوئی اتا پتہ نہیں ہے